نبی کریم ﷺ کی ہرقل کو دعوت

 

 

نبی کریم ﷺ کی ہرقل کو دعوت

سنہ 7 ہجری کی بات ہے۔آپ ﷺ کی کفار مکہ کے ساتھ صلح  ہوچکی تھی ۔ کفار اور مسلمانوں کے درمیان جنگ بندی  کا معاہدہ طے پا چکا تھا۔ تمام مسلمان اور تمام کفار پرسکون تھے ۔ جنگ کا کوئی اندیشہ نہ تھا۔  اس موقع پر آپ ﷺ نے مختلف بادشاہوں کو  دین کی دعوت کے لیے خطوط لکھے ۔  ان سلاطین میں  دنیا کا طاقتور بادشاہ "قیصر روم " بھی تھا ۔ یہ روم کا بادشاہ تھا جو کہ اس وقت کی عظیم ترین طاقت تھی۔ اس کا اصل  نام "ہرقل " تھا ۔روم کے بادشاہ کو قیصر کہا جاتا تھا ۔ اس لیے اس کو قیصر روم کہتے تھے ۔ یہ نصرانی مذہب کا ماننے والاتھا۔ اس کو علم نجوم پر بھی دسترس حاصل تھی ۔

روم کے علاوہ ایک اور طاقتور ترین ریاست روس تھی۔ جس کے بادشاہ کو "کسری" کہا جاتا تھا۔ ان دونوں ریاستوں کا جھگڑا چلتارہتا تھا۔  کسریٰ نے سوائے قسطنطنیہ کے باقی تمام ریاستوں پر قبضہ کرلیا تھا۔ قسطنطنیہ پر اس کا مدتوں محاصرہ رہا تھا ۔ کسریٰ اپنے ایک گورنر کو معزول کرنا چاہ رہا تھا ، وہ قیصر کے ساتھ مل گیا نتیجہ یہ ہوا کہ کسری کو محاصرہ   چھوڑ کر جانا پڑا۔اس طرح  اس وقت روس کو شکست ہوئی تھی اور رومی غالب ہوئے تھے ۔ ہرقل نے نظر مانی تھی کہ میں اگر جنگ جیت گیا تو میں بیت المقدس  میں عبادت کروں گا۔ چنانچہ ہرقل بیت المقدس چل پڑا۔ وہ  ایلیاء کے مقام پر تھا  کہ سرور کونین ﷺ کے قاصد حضرت دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ   آپ ﷺ کا خط لے کر پہنچ گئے۔

ہرقل کی پیشنگوئی

ہر قل بیت المقدس جب آیا تھا تو ایک دفعہ وہ صبح جب اٹھا تو اس کی طبیعت خراب تھی

اس کے خاص مشیروں میں سے کسی نے یہ حالت بھانپ کر سوال کیا :" آج آپ کی حالت کچھ بدلی بدلی سی ہے۔ طبیعت تو ٹھیک ہے آپ کی ؟"

ہرقل نے کہا : " آج رات جب میں نے ستاروں میں غور کیا تو مجھے یہ معلوم ہوا کہ ختنہ کرنے والے کی بادشاہت ظاہر ہوگئی ہے۔ تو یہ بتاؤ کون لوگ ہیں جو ختنہ کرنے والے ہیں؟

اس کے خاص مشیروں نے کہا کہ یہود کے علاوہ کوئی بھی ختنہ کا قائل نہیں ہے۔مگر آپ بے فکر رہیں ، پریشان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ۔ آپ تمام بڑے شہروں کے حاکموں کو یہ خط لکھ دیں کہ جتنے بھی یہودی ان کے شہر میں ہیں انہیں قتل کردیا جائے۔

ابھی وہ اس منصوبے سے متعلق غور و فکر کر ہی رہے تھے کہ ہرقل کی خدمت میں غسان کے بادشاہ  یعنی بصرہ کا حاکم حارث ابن ابی شیمر الغسانی کی طرف سے ایک قاصد آیا۔

اس نے آکر یہ خبر دی کہ عربوں میں ایک نوجوان اپنے نبی ہونے کا دعویٰ کرتا ہے، اور وہ لوگوں کو اسلام کی طرف دعوت دیتا ہے، بہت سے لوگ اس کی پیروی کرنے لگے ہیں۔

ہرقل کے پاس آنے والا قاصد کون تھا؟

بعض حضرات فرماتے ہیں کہ یہ حضرت عدی بن حاتم تھے ،یہ اس وقت اسلام نہیں لائے تھے۔

اور بعض حضرات فرماتے ہیں کہ حضرت دحیہ کلبی رضی اللہ عنھم  تھے  کیونکہ نبی کریم ﷺ نے حضرت دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ   کو خط دے کر روانہ کیا تھا۔ تو حضرت دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ   خود ہرقل کے پاس نہیں جاسکتے تھے کیونکہ اس کے پاس جانے کے لیے مختلف درجات تھے کہ پہلے فلاں سے ملو پھر فلاں سے ہوتے ہوتے ان تک پہنچ سکتے تھے۔ چنانچہ آپ رضی اللہ عنہ   پہلے وہ خط  بصریٰ کے حاکم کے پاس لے کر گئے اور اس نے آپ رضی اللہ عنہ   کو وہ خط واپس کرکے کہا کہ آپ خود وہ خط ہرقل کے پاس لے جائیں۔ یہ دونوں حضرات ممکن ہیں۔

ہرقل کی تحقیق

ہرقل نے اپنے ساتھیوں سے کہا:"  دیکھو جو خط لایا ہے کیا وہ ختنہ کرنے والا ہے۔"

انہوں نے کہا :"ہاں !یہ شخص مختون ہے، اس کی ختنہ ہوئی وی ہے۔"

ہرقل نے قاصد سے کہا:" کیا عرب ختنہ کرتے ہیں؟"

قاصد نے کہا :"ہاں!وہ ختنہ کرتے ہیں۔"

ہرقل نے کہا :"عربوں کی سلطنت ظاہر ہوگئی۔"

اس دوران نبی کریم ﷺ کا خط لے کر حضرت دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ  ہرقل کے پاس پہنچ گئے۔ نبی کریم ﷺ کا خط اس کو مل گیا۔ہرقل نے آپ ﷺ کا خط ملنے کے بعد اپنے ساتھیوں سے کہا کہ عرب کے لوگ تجارت کی غرض سے یہاں آتے رہتے ہیں۔ اگر کوئی قافلہ یہاں آیا ہوا ہو تو اسے میرے پاس بھیجو ۔تاکہ میں ان سے معلومات حاصل کرسکوں۔

حضرت ابوسفیان رضی اللہ عنہ   تجارت کی غرض سے قافلے کے ساتھ شام گئے ہوئے تھے ۔ یہ اپنے ساتھیوں کے ہمراہ بیت المقدس پہنچے اور ہرقل کے پاس آگئے۔

قیصر روم کے دربار میں حضرت ابوسفیان رضی اللہ عنہ کی آمد

ہرقل نے حضرت ابوسفیان رضی اللہ عنہ  اور ان کے ساتھیوں کو اپنی مجلس میں بلایا۔ ہرقل کے ساتھ موجود  روم کے بڑے سردار بھی تھے اور ترجمان بھی ، کیونکہ حضرت ابوسفیان رضی اللہ عنہ  اور ان کے ساتھی عربی بولتے تھے اور ہرقل سریانی وغیرہ بولتا تھا۔

ہرقل نے کہا:" تم میں سے کون شخص نسب کے اعتبار سے اس شخص کاسب  زیادہ قریبی رشتہ دار ہے جو اپنے آپ کو نبی سمجھ رہا ہے۔"

حضرت ابوسفیان رضی اللہ عنہ  نے فرمایا: " میں اس شخص کانسبی قرابتدار ہوں۔"

ہرقل نے کہااپنے ساتھیوں سے :" اسے میرے قریب کردو۔ اور اس کے ساتھیوں کو اس کے پیچھے بٹھادو۔"
ہرقل نے اپنے ساتھیوں سے حضرت ابوسفیان رضی اللہ عنہ  کے ساتھیوں کو ان کے پیچھے کرنے کا اس لیے کہا تھا تاکہ اگر کسی بات کا جواب حضرت ابوسفیان رضی اللہ عنہ  غلط دیں تو ان کے ساتھی پیچھے سے منع کرسکیں کیوںکہ عموماً جب کوئی بالکل سامنے غلط بات بولتا ہے تو اس کے منہ پر اس کی تکذیب کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ پیچھے بولنا آسان ہوتا ہے۔

پھر ہرقل نے اپنے ترجمان سے کہا:" ان سب  سے کہہ دوکہ میں اس شخص سے یعنی حضرت ابوسفیان رضی اللہ عنہ   سے نبی کے بارے میں سوالات کر رہا ہوں، اگر یہ کسی بات کا جواب غلط دیں تو تم پیچھے سے منع کردینا کہ یہ جھوٹ بول رہا ہے۔"

حضرت ابو سفیان فرماتے ہیں ،اگر مجھے اس بات کا ڈر نہ ہوتا کہ میری قوم واپس جا کر سب سے یہ کہے گی کہ دیکھو ابو سفیان نے جھوٹ بولا ، مجھے بدنام کرے گی ، تو میں ضرور جھوٹ بولتا ، کیونکہ اس وقت میرا سب سے بڑا دشمن نبی کریم ﷺ تھے۔

ہرقل نے حضرت ابوسفیان رضی اللہ عنہ  سے پوچھا:"بتاؤ نبی کریمﷺ کا نسب تم میں کیسا ہے؟"

حضرت ابوسفیان رضی اللہ عنہ  نے فرمایا :"جی، وہ صاحب نسب ہیں ۔" یعنی اعلیٰ نسب کے ہیں سارے عرب میں ان کے خاندانی شرافت کے چرچے ہیں۔

ہرقل نے حضرت ابوسفیان رضی اللہ عنہ  سے پوچھا :"کیا اس سے پہلے تمہارے قبیلے کے کسی شخص نے نبوت کا دعویٰ کیا تھا۔"

حضرت ابوسفیان رضی اللہ عنہ  نے فرمایا :"نہیں ایسا کبھی نہیں ہوا۔"

ہرقل نے حضرت ابوسفیان رضی اللہ عنہ  سے پوچھا :"ان کے آباؤاجداد میں سے کبھی کوئی بادشاہت کے منسب پر فائز ہوا؟"

حضرت ابوسفیان رضی اللہ عنہ  نے فرمایا :"نہیں۔"

ہرقل نے حضرت ابوسفیان رضی اللہ عنہ  سے پوچھا :"ان پر ایمان لانے والے معزز لوگ  ہیں یا غریب کمزور لوگ ہیں۔"

حضرت ابوسفیان رضی اللہ عنہ  نے فرمایا :"کمزور لوگ ہیں۔"

ہرقل نے حضرت ابوسفیان رضی اللہ عنہ  سے پوچھا :"کیا ان کے ماننے والے مسلسل بڑھ رہے ہیں یا کم ہورہے ہیں؟"

حضرت ابوسفیان رضی اللہ عنہ  نے فرمایا :"ان کے ماننے والے بڑھ رہے ہیں۔"

ہرقل نے حضرت ابوسفیان رضی اللہ عنہ  سے پوچھا :"کیا ان پر ایمان لانے والوں میں سے کوئی ایسا شخص ہے جو  ان کے دین سے ناراض ہوکر واپس کفر کے راستے کی طرف پھرا ہو۔"

حضرت ابوسفیان رضی اللہ عنہ  نے فرمایا :"نہیں ایسا کبھی نہیں ہوا۔"

ہرقل نے حضرت ابوسفیان رضی اللہ عنہ  سے پوچھا :"کیا تم میں سے کسی نے کبھی ان کے نبوت کے دعوے سے پہلے ان پر  کسی جھوٹ کی تہمت لگائی  ہے؟"

حضرت ابوسفیان رضی اللہ عنہ  نے فرمایا :"نہیں، آپ پر کبھی کسی معاملے میں جھوٹ کی تہمت نہیں لگی۔"

ہرقل نے حضرت ابوسفیان رضی اللہ عنہ  سے پوچھا :"کیا وہ غداری کرتے ہیں یعنی وعدہ خلافی اور امانت میں خیانت کرتے ہیں؟"

حضرت ابوسفیان رضی اللہ عنہ  نے فرمایا :"نہیں ،اب تک تو ایسا نہیں ہوا البتہ ابھی ہم نے جنگ بندی کی مصالحت کی ہوئی ہے ۔معلوم نہیں کہ وہ کیا کریں۔"

حضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں صرف مجھے یہیں ایک موقع ملا تھا کہ میں اپنی طرف سے کوئی بات کرسکوں۔لیکن یہاں بھی یہ نہ کہا کہ غداری کرتے ہیں بلکہ یہ کہا کہ پتہ نہیں کیا کریں۔

ہرقل نے حضرت ابوسفیان رضی اللہ عنہ  سے پوچھا :"کیا تمہاری ان کے ساتھ جنگ ہوئی ہیں؟"

حضرت ابوسفیان رضی اللہ عنہ  نے فرمایا :"ہاں ہوئیں ہیں۔"

ہرقل نے حضرت ابوسفیان رضی اللہ عنہ  سے پوچھا :"تمہاری لڑائی ان کے ساتھ کیسی رہی؟ کیا نتیجہ رہا؟"

حضرت ابوسفیان رضی اللہ عنہ  نے فرمایا :"جنگ ان کے اور ہمارے درمیان ڈولوں کی طرح رہی  ۔"  یعنی جس طرح بہت سے لوگ پانی بھرنے کے لیے ایک کے بعد ایک  اپنا ڈول باری باری پانی سے بھرتے ہیں ۔ پانی  میں ڈول باری باری جاتا ہے، ویسے ہی جب ڈول ہمارے ہاتھ میں ہوتا ہے تو ہم غالب آجاتے ہیں اور ان کے ہاتھ میں ڈول ہوتا ہے تو یہ جیت جاتے ہیں۔کبھی ہم جیت جاتے ہیں کبھی وہ جیت جاتے ہیں۔

یہ بات حضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہ  نے اس لیے فرمائی تھی کہ غزوہ احد میں وقتی طور پر ان کی جیت ہوئی تھی ورنہ جتنے بھی غزوات ہوئے تھے ان میں مسلمان ہی غالب آئے تھے۔

ہرقل نے حضرت ابوسفیان رضی اللہ عنہ  سے پوچھا :"وہ تمہیں کس چیز کا حکم  دیتے ہیں۔"

حضرت ابوسفیان رضی اللہ عنہ  نے فرمایا :"وہ کہتے ہیں صرف اللہ کی عبادت کرو اور اسکے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ،اپنے آباؤ اجداد کی باتوں کو چھوڑو۔وہ ہمیں نماز کا حکم دیتے ہیں اور سچ بولنے کا ، پاکدامنی اختیار کرنے کا اور صلہ رحمی کرنے کا کہتے ہیں۔"

ہرقل کی تصدیق

ہرقل نے اپنے ترجمان سے کہا:"ان سے کہو !

میں نے تم سے ان کے نسب کے بارے میں سوال کیا ۔تم نے کہا کہ وہ صاحب نسب ہیں ، اسی طرح دوسرے رسول بھی اپنی قوم میں صاحب نسب ہوتےہیں۔

میں نے تم سے کہا کہ کیا اس سے پہلے کسی نے تمہاری قوؐ میں سے  نبوت کا دعویٰ کیا ہے ۔تم نے کہانہیں۔ اگر کسی نے پہلے کبھی اس طرح کا دعویٰ کیا ہوتا تو میں کہتا کہ یہ بھی اسی کی طرح کی بات کر رہا ہے ۔ ان کی قوم کو اس طرح کی باتوں کی عادت ہے۔

میں نے پوچھا کیا ان کے آباؤ اجداد میں سے کبھی کوئی بادشاہ گزرا ہے ۔تم نے کہا کہ نہیں۔ اگر ان کے آباؤ اجداد میں سے کبھی کوئی بادشاہ گزرا ہوتا تو میں کہتا کہ یہ آدمی اپنے آباؤ اجداد کی بادشاہت کا خواہاں ہے۔

میں نے پوچھا کہ تم نے کبھی ان پر جھوٹ کی تہمت لگائی ہے۔ تم نے کہا نہیں۔ تو میں نے جان لیا  کہ وہ ایسا نہیں ہوسکتا کہ  جو لوگوں کے سامنے جھوٹ بولنے سے تو رک جائے لیکن اللہ پر جھوٹ باندھنے پر نہ ڈرے۔

میں نے پوچھا کہ قوم کہ معزز لوگ ان کی اتباع کر رہے ہیں یا کمزور لوگ ۔تم نے کہا کہ کمزور لوگان کی اتباع کر رہے ہیں۔ توشروع میں قوم کے ضعفاء ہی پیغمبروں کی اتباع کرنے والے ہوتے ہیں۔

میں نے پوچھا کہ وہ بڑھ رہے ہیں یا کم ہورہے ہیں ۔تم نے کہا کہ وہ بڑھ رہے ہیں ۔ تو اسی طرح ایمان لانے والوں کی تعداد بڑھتی رہتی ہے ،یہاں تک کہ اللہ کا معاملہ پورا ہوجاتا ہے۔

میں نے تم سے پوچھا کیا ان پر ایمان لانے والوں میں سے کوئی ایسا شخص ہے جو  ان کے دین سے ناراض ہوکر واپس کفر کے راستے کی طرف پھرا ہو۔ تم نے کہا کہ نہیں  ۔تو یہی ایمان کی شان ہے  کہ جب وہ لوگوں کے دلوں میں قرار پاتا ہے تو پھر وہاں سے واپس نہیں نکلتا۔

میں نے پوچھا کیا وہ وعدہ خلافی  کرتے ہیں ۔تم نےکہا کہ نہیں۔ تو اسی طرح رسول غداری نہیں کرتے۔

میں نے تم سے پوچھا کہ کیا تم ان سے لڑے ہو۔ تم نے کہا ہاں ، کبھی وہ اور کبھی ہم ایک دوسرے پر غالب آتے رہتے ہیں۔ تو اسی طرح اللہ اپنے رسولوں کو ابتدا میں کبھی غالب کرتا ہے کبھی مغلوب ۔ اس سے ان کی اتباع کرنے والوں کے صدق کا امتحان ہوتا رہتا ہے لیکن آخر غلبہ انہی کا ہوتا ہے۔

میں نے پوچھا کہ وہ کس چیز کا حکم دیتے ہیں۔ تم نے کہا کہ وہ حکم دیتے ہیں کہ اللہ کی عبادت کرو اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹہراؤ اور وہ تمہیں بتوں کی عبادت سے روکتے ہیں اور نماز کا ،سچائی کا اور پاکدامنی کا حکم دیتے ہیں ۔اگر تمہاری بات حق ہوئی تو عنقریب میرے ان دوقدموں کا بھی وہ مالک ہوگا جہاں میں بیٹھا ہوں ۔ اس کی حکومت یہاں تک پہنچ جائے گی۔اگر مجھے معلوم ہوتا کہ میں ان تک پہنچ سکتا ہوں تو جتنی تکالیف راستے میں آتیں میں انہیں برداشت کرتا اور ان تک پہنچ کر رہتا۔ میں ان کے پاؤں دھوتا۔"

پھر اس نے نبی کریم ﷺ کا خط منگوایا جو آپ ﷺ نے حضرت دحیہ کلبی کے ذریعے سے بھجوایا تھا۔

ہرقل کے نام نبی کریم ﷺ کا خط

ہرقل نے اس خط کو پڑھا اس پر لکھا تھا:

"بسم الله الرحمن الرحيم، من محمد عبد الله ورسوله إلى هرقل عظيم الروم، سلام على من اتبع الهدى، اما بعد، فإني ادعوك بدعاية الإسلام اسلم تسلم يؤتك الله اجرك مرتين، فإن توليت فإن عليك إثم الاريسيين، ويا اهل الكتاب تعالوا إلى كلمة سواء بيننا وبينكم، ان لا نعبد إلا الله ولا نشرك به شيئا، ولا يتخذ بعضنا بعضا اربابا من دون الله، فإن تولوا فقولوا: اشهدوا بانا مسلمون"

 

"اللہ کے نام کے ساتھ جو نہایت مہربان اور رحم والا ہے۔
اللہ کے بندے اور اس کے پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے یہ خط ہے شاہ روم کے لیے۔ اس شخص پر سلام ہو جو ہدایت کی پیروی کرے اس کے بعد میں آپ کے سامنے دعوت اسلام پیش کرتا ہوں۔ اگر آپ اسلام لے آئیں گے تو (دین و دنیا میںسلامتی نصیب ہو گی۔ اللہ آپ کو دوہرا ثواب دے گا اور اگر آپ (میری دعوت سےروگردانی کریں گے تو آپ کی رعایا میں سے جو بیشتر کاشتکار ہیں ان   کا گناہ بھی آپ ہی پر ہو گا۔ اور اے اہل کتاب! ایک ایسی بات پر آ جاؤ جو ہمارے اور تمہارے درمیان یکساں ہے۔ وہ یہ کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں اور کسی کو اس کا شریک نہ ٹھہرائیں اور نہ ہم میں سے کوئی کسی کو اللہ کے سوا اپنا رب بنائے۔ پھر اگر وہ اہل کتاب (اس بات سےمنہ پھیر لیں تو (مسلمانو!) تم ان سے کہہ دو کہ (تم مانو یا نہ مانوہم تو ایک اللہ کے اطاعت گزار ہیں۔"

 

خط سنتے ہی دربار میں ہلچل

جب ہرقل نے خط پڑھ لیا تو اس کے درباریوں میں باہم باتیں شروع ہوگئیں، جس کی وجہ سے وہاں شور ہونے لگا۔ کیونکہ ہرقل نے تقریباً نبی کریم ﷺ کی تصدیق کردی تھی ۔

ہرقل نے حضرت ابوسفیان اور ان کے ساتھیوں کو باہر بھیج دیا تو ابو سفیان نے اپنےساتھیوں سے کہا کہ  ابن ابی کبشہ کا معاملہ بڑھ گیا ہے۔ اتنا کہ بنوالاصفر کا بادشاہ بھی ڈر رہا ہے۔

حضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہ کا نبی کریم ﷺ کوابن ابی کبشہ کہنے کی وجہ

ابی کبشہ رسول ﷺ کے آباؤاجداد میں سے کوئی شخص تھے جو زیادہ مشہور نہیں ہیں ، ان کا نام لینے کی وجہ یہی تھی کہ حضرت ابو سفیان  رضی اللہ عنہ یہ کہنا چاہتے تھےکہ  آپ ﷺ  جو کہ اتنا مشہور نہیں ہیں جن کے آباؤاجداد کو کوئی جانتا نہیں ہے۔ان کا معاملہ اس حد تک بڑھ گیا ہے کہ دنیا کا طاقتور  بادشاہ بھی آپ سے ڈر رہا ہے۔

حضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہ کا قیصر روم کو بنو الاصفر کہنے کی وجہ

بنو الصفر سے مراد رومی لوگ تھے۔ رومیوں کے  جدامجد روم ابن عیص کا لقب اصفر تھا ۔ انہوں نے حبشہ کی لڑکی سے نکاح کرلیا تھا۔ روم کے لوگ خوبصورت ،سرخ وسفید ہوتے تھے، جبکہ حبشہ کے لوگ سیاہ رنگ کے ہوتے تھے ، نتیجۃً ان کی اولاد گندمی رنگ کی پیدا ہوئی جس کی وجہ سے انہیں اصفر اور ان کی اولاد کو بنوالاصفر کہا جانے لگا۔

حضرت ابوسفیان رضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں مجھے اس وقت یقین ہوگیا تھا کہ آپ ﷺ غالب آئیں گے۔

ہرقل کا ضغاطر کو خط

اس دربار کے بعد ہرقل نے اپنے ایک رومیہ کے ایک بڑے عالم کو، جس کا نام ضغاطر تھا،خط لکھا، اپنے اس خیال کی توثیق کے لیےورنہ اسے تو یقین ہوہی چکا تھا۔ وہ بھی ہرقل کی طرح علم نجوم اور علم کہانت میں ماہر تھا۔پھر  ہرقل ایلیاء سے حمص کی طرف روانہ ہوگیا۔  ابھی وہ حمص میں ہی تھا کہ اس  کے ساتھی نے بھی ہرقل کی تصدیق کردی کہ ہاں ایسا ہونے والا ہے۔ختنہ کرنے والے غالب آنے والے ہیں۔

قیصر روم کا سرداروں کو جمع کرنا

پھر ہرقل نے روم کے بڑے سرداروں کو اپنے محل میں آنے کی دعوت دی ۔

جب سب آگئے تو اس نے محل کے دروازے بند کردیے۔اور خود محل کے بالاخانے میں کھڑا ہوگیا،پھر اس نے لوگوں کی طرف توجہ کی  اور کہا:"اے روم کے لوگوں کیا تم کامیابی اور یدایت چاہتے ہو؟اور یہ کہ تمہاری حکومت برقرار رہے ؟اگر چاہتے ہو تو اس نبی ﷺ کے ہاتھ پر بیعت کرلو۔"

ابھی قیصر نے یہ بات کہی تھی کہ سارے سردار حمار وحشی کی طرح دروازے کی طرف لپکے ، مگر وہ بند تھے۔

قیصر نے یہ دیکھا کہ کس طرح وہ اس بات کو سننا بھی نہیں چاہ رہے بلکہ اتنی نفرت کے ہرقل سے ملے بغیر ،اس کی اجازت کے بغیر، باہر کی طرف نکلنا چاہ رہے ہیں، تو اسے مھسوس ہوا کہ یہ لوگ ایمان نہیں لائیں گے۔

اس نے اپنے ساتھیوں سے کہا ،کہ انہیں واپس میرے پاس بلاؤ، پھر ان سے کہا کہ میں نے جو ابھی بات کہی تھی، اس لیے کہی تھی کہ میں تمہارا امتحان لینا چاہ رہا تھا  کہ تم اپنے دین پر کتنے مضبوط ہو؟ میں نے دیکھ لیا کہ تم اپنے دین پر ثابت قدم ہو، اپنے دین کے خلاف کچھ سننا گوارا نہیں ہے۔ تم بہت اچھے لوگ ہو۔

تووہ سب ہرقل کی بات سن کر اس کے آگے سجدہ ریز ہوگئے۔

نبی کریم ﷺ کی ہرقل کو دوبارہ دعوت
 اس کے بعد سنہ9 ھ میں غزوہ تبوک کے موقع پر نبی کریم ﷺ نے ہرقل کو دوبارہ اسلام کی دعوت دی ۔ اور دوبارہ حضرت دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ   کو خط لے کر روانہ کیا ۔

حضرت دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ   نے وہ خط ہرقل کو پیش کیا تو ہرقل نے کہا کہ یہ خط آپ رومیہ کے پادری کے پاس لے جائیں ۔

حضرت دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ   وہ خط رومیہ لے گئے ۔ اس پادری نے وہ خط پڑھا اور تمام حالات کا جائزہ لے کر اس نے یہ فیصلہ کیا کہ نبی کریم ﷺ واقعی نبی ہیں ۔آپ ﷺ کی صفات ہماری کتابوں میں لکھی ہوئی ہیں۔ اس نے نبی کریم ﷺ کی دعوت کو قبول کیا اور آپ کی تصدیق کی ۔

اس پادری نے حضرت دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ  سے کہا کہ آپ رسول اکرم ﷺ سے یہ بات کہہ دیجئے گا کہ میں ان پر ایما ن لے آیا ہوں ، میں اسلام میں داخل ہوتا ہوں اور اس نے کلمہ بھی پڑھ لیا۔

اس کے بعد وہ حضرت دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ   کے پاس سے اٹھا اور حجرہ میں گیا اور اپنے سیاہ کپڑے اتار کر اس نے سفید کپڑے پہنے اور   عصا لے کر کنیسا میں گیا اور  اس نے تمام لوگوں میں یہ اعلان کیا کہ لوگو ! اب تک میں اس دین پر تھا ، لیکن اب میں رسول کریم ﷺ کی رسالت کی تسلیم کرتا ہوں اور ان کے دین میں داخل ہوتا ہوں، میں آج اسلام لاتا ہوں۔

روم کے سب سے بڑے پادری کی یہ بات سن کر سب لوگ مشتعل ہوگئے اور ان پادری کی طرف بڑھے اور انہیں اتنی تکلیفیں پہنچائیں کہ وہ شہید ہوگئے۔

حضرت دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ   یہ منظر اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے۔ انہوں نے سارا منظر ہرقل کے گوش گزار دیا ۔

ہرقل نے  ساری روداد سننے کے بعد کہا :" یہی وجہ ہو کہ میں نبی کریم ﷺ پر ایمان لانے سے ڈرتا ہوں ۔ اگر میں بھی ایمان لے آؤں تو میرا انجام بھی وہی ہوگا جو ان کا ہوا ہے، میری قوم مجھے ہلاک کردےگی۔

کیا ہرقل مسلمان ہوگیا تھا؟

اگر ہم ہرقل کی باتوں پر غور کریں تو اس بات کا بخوبی علم ہوتا ہےکہ اس نے نبی کریم ﷺ کی تصدیق کردیتی ۔ آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہونے کی خواہش اور آپ کے پاؤں دھونے کی آرزو یہہرقل کے دل میں آپ سے محبت اور آپ کی نبوت کی تصدیق ظاہرکرتی  ہے۔البتہ اس نے اعلاں اسلام کا نہیں کیا تھا جس کی وجہ آپﷺ کی نبوت کا انکار نہیں بلکہ اپنے درباریوں کا خوف تھا۔ کہ اسلام لانے کی صورت میں اسے ڈر لگا تھا کہ اس کی سلطنت کے لوگ اسے مارڈالیں گے جیسا کہ رومہ کے پادری کو شہید کیا تھا۔ جس کی ہرقل سے زیادہ شان تھی۔

بعض حضرات فرماتے ہیں کہ اسلام کے دو جزء ہیں ایک تصدیق بالقلب دوسرا اقرار باللسان۔ یعنی دل سے تصدیق کرنا اور زبان سے اقرار کرنا۔ تو چونکہ ہرقل کو تصدیق بالقب تو حاصل ہوگئے تھی کہ اس کے دل میں نبوت نبی کریم ﷺ کی گھر کر گئی تھی لیکن اقرار اس سے ثابت نہیں ہوا تو کیا معلوم اس نے کبھی تنہائی میں اقرار کرلیا ہو ۔ لہٰذا اس کو مسلمان مانتے ہیں۔

لیکن صحیح اور محقق بات یہ ہے کہ ہرقل مسلمان نہیں ہوا تھا۔ بہت سی احادیث سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اس نے اسلام قبول نہیں کیا تھا ۔  اس نے تبوک کے موقع پر نبی کریم ﷺ کے خلاف  ایک بہت بڑا لشکر تیار کیا جس کی وجہ سے آپ کو بھی اس غزوہ کے لیے تیاری کرنی پڑی ۔ اگر یہ مسلمان ہوچکا تھاتو کبھی اتنا بڑا لشکر آپ ﷺ کے خلاف  تیا ر نہ کرتا۔ نیز تبوک کے بعد اس نے موتہ کےمقام پر مسلمانوں کے خلاف جنگی لشکر تیار کیا ۔ مسلمانوں کو سخت مقابلہ کرنا پڑا ۔ کئی بڑے بڑے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم  اس جنگ میں شہید ہوئے۔ یہ جنگیں اس کے مسلمان نہ ہونے کے لیے واضح ثبوت ہیں۔

سب سے بڑھ کر اس روایت سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ جب نبی کریمﷺ نے غزوہ تبوک کے موقع پر حضرت دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ   کو ہرقل کی طرف خط لکھ کر بھیجا تھا تو اس نے جواب میں آپ ﷺ کو خط لکھا کہ میں مسلمان ہوں۔ تو آپ ﷺ نے اس کے جواب کو سن کر فرمایا:"کذب عدو اللہ لیس بمسلم وھو علی النصرانیۃ"

اللہ کے دشمن نے جھوٹ بولا۔ یہ مسلمان نہیں ہے۔ یہ دین نصرانیت پر ہی قائم ہے۔

تو آپﷺ کا خود کا فرمان اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ ہرقل مسلمان نہیں ہوا تھا۔

 


 

 

 

 

 

 

 

 

Comments

Popular posts from this blog

بھوت بنگلہ کے شکار

The time is money