بھوت بنگلہ کے شکار

بھوت بنگلہ کے شکار

میں اس وقت ساتویں جماعت  کا طالب علم تھا ۔جب ہماری کلاس میں  ایک نیا طالبعلم  داخل ہوا۔ اسکا نام  فیصل تھا ۔ رنگ قدرے سیاہ، چھوٹی ناک، مضبوط بازو اور تیز آنکھیں تھیں۔ داخلہ اسکا نیا ہوا تھا لیکن اس کو کلاس میں سیٹ اساتذہ کے قریب والی ملی تھی ۔ معلوم یہ ہوا تھا کہ صاحب پڑھنے میں بلا کے ذہین ہیں۔اپنا گزشتہ رکارڈ شاندار رکھتے ہیں۔ نہ صرف علم و فضل رکھتے ہیں۔ غیر نصابی سرگرمیوں میں بھی اپنا لوہا منواتے آرہے ہیں۔ میری اس سے ملاقات دو دن پہلے اپنے بابا کے ساتھ ہوئی تھی۔ موصوف ہمارے علاقے میں نئے آئے تھے ۔رحیم چاچا کے جانے کے بعد فیصل کے والد نے وہ گھر کرایہ پر لے لیا تھا ۔اور آتے ہی ان کے والد صاحب نے بابا سے دوستی کرلی تھی۔حالانکہ بابا نے صرف اچھے پڑوسیوں کی طرح حسن سلوک کی خاطر ان کی کچھ خاطر مدارت  کی تھی ، کہ نئے رہنے آئے ہیں ،کچھ مشکل نہ ہو۔ لیکن کہتے ہیں نہ کہ انگلی پکڑائی تو ہاتھ پکڑ لیا۔تقریباً پورا وقت ہی اپنے لخت جگر کی تعریفیں کی تھیں۔اس کی نصابی اور غیر نصابی سرگرمیوں کو خوب بسط کے ساتھ واضح کیاتھا۔بابا ان سے مل کر بہت خوش ہوئے۔ بس اب بابا ان کےگہرے دوست تھے۔ فیصل کی تعلیم کے لیے اسی اسکول کا انتخاب کیاتھا جس میں بابا کے فرزند یعنی میں پڑھا کرتاتھا۔مجھے فیصل پہلی ہی ملاقات میں بالکل نہ بھایاتھا۔

جب سے وہ ہمارے علاقے میں رہنے آیا تھا۔ بابا کا انداز بدل سا گیا تھا ۔ مجھ سے ہر وقت اس کی تعریفیں کرتے رہتے تھے۔ اس کے والد سے اس کےبارے میں معلومات لیتےبلکہ لیتےکیا وہ خود ہر وقت اپنے برخوردار کا تذکرہ بابا کے سامنےکرتے رہتے تھے۔ پھر بابا مجھ سے اس کی تعریفیں کرتے کہ وہ  ایسا ہے ویسا ہے۔ تم بھی اس سے کچھ سیکھو ۔مجھے اس پر بہت غصہ آتا تھا۔

ایک دفعہ  میں اور بابا باغ میں پودوں کی دیکھ بھال کر رہے تھے ۔ بابا نے پودوں کی کٹائ کا کام سنبھالا تھااور میں نئے پودے اگانے کے لیے کیاری کی مرمت کر رہا تھا ۔ ہم دونوں سبزہ زار میں پودوں اور پھولوں کی جھرمٹ میں مسرور تھے کہ بابا نے کہا :

"بیٹا ! تم  کراٹے کیوں نہیں سیکھ لیتے؟"

میں نے حیرانی سے کہا :" خیر ہے ؟ اس موقع پر ، آپ کو کراٹے کا خیال کیسے آگیا؟"

بابا:"تمہارا دوست فیصل بھی تو سیکھ رہا ہے۔اس کے والد صاحب بتا رہے تھے کہ یہ سیکھنا آج کے دور میں بہت ضروری ہے۔ کم سے کم خود سے بچاؤ کرنا توآہی جائے گا۔"

میں نے سر پکڑلیا۔

کلاس میں ٹیچر داخل ہوئیں ،سب بچوں سے حال احوال دریافت کیے، پھر وہ بات کہی جس نے مجھے غصے سے لال کردیا۔

"پیارے ساتھیوں! آج آپکی کلاس میں ایک ایسے طالبعلم داخل ہوئے ہیں جو نہ صرف علم کے شوقین ہیں بلکہ زندگی کے ہر میدان میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے ہر دم پرعزم رہتے ہیں۔ انکا علمی پس منظراور ہر درجہ میں اعلی کامیابی کا ریکارڈ بتاتا ہے کہ یہ  اسکول کے اچھے طالبعلم ہی نہیں بلکہ آپ کے اچھے دوست بھی ثابت ہوں گے۔ امید ہے کہ آپ سب ان کو خوشی خوشی خوش آمدید کہیں گے۔"

سب طلبہ نے خوشی کا اظہار کیا اور گلے مل کر اس کا استقبال کیا۔

گھنٹی بجی ، بریک کا ٹائم ہوا۔ سب کلاس سے باہر جانے لگے ۔ میں بھی اپنے دوستوں کے ساتھ باہر جانے لگا ۔اور انہیں میدان لے جانے کے بجائے کینٹین کی طرف لےگیا۔

"خیریت ہے ؟ آج ہم کینٹین جا رہے ہیں۔" میرے دوست ارشد نے میرے بازو میں ہاتھ ڈال کر کہا۔

" لگتا ہے  آج بابا نے کچھ زیادہ جیب خرچی دےدی ہے۔" معیز  نے بلا لہراکر کہا۔

"کیا ہوا سعید بھائ ؟ منہ لٹکا ہوا کیوں ہے؟کلاس میں بھی بالکل خاموش تھے۔"  اریب نے بالکل میرے سامنے آکر کھڑے ہو کر کہا۔

" کچھ نہیں! "میں نے اس کو ہٹایا ۔

ہم سب ٹیبل پر بیٹھ گئے تھے ، سارے دوست مجھے دیکھ رہے تھے ۔ سب کچھ سننا چاہ رہے تھے ۔ سب کی نگاہیں میری طرف گڑی ہوئی تھیں۔میں نے ان کی مشکل حل کردی ۔ انہیں ساری روداد سنادی ۔ اپنے دل کا بوجھ ہلکا کردیا ۔ سب سوچ میں مبتلا ہو گئے۔

ہمم۔۔۔  تو یہ بات ہے۔" اریب نے چائے کا کپ  میز پر رکھ کر کہا۔

ابھی یہ کچھ کہنے ہی والے  تھے کہ اچانک سامنے  سے فیصل   آتا دکھائ دیا۔

"کیسے ہو پیارے دوستوں! میرا نام فیصل ہے۔ " ا س نے آتے ہی اپنا تعارف کروایا اور کرسی اپنی طرف کھسکا کر بیٹھ گیا۔

"اب اسے میرے دوست بھی چاہئیں۔" میں نے دل میں سوچااور اس کی طرف سنجیدگی سے دیکھنے لگا۔

"مل کر خوشی ہوئ۔" میرے دوستوں نے پھیکی سی مسکراہٹ کے ساتھ اس کا خیر مقدم کیا۔

"میں سعید کے محلے میں نیا رہنے آیا ہوں۔ " فیصل نے  ان کی طرف مسکراتے ہوئے کہا۔

" ہاں! سعید نے بتایا تھا۔ "  ارشد نے جواب دیا۔

اتنے میں گھنٹی بجی اورہم  سب کلاس کی طرف بڑھ گئے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

رات کا وقت تھا۔ہم چاروں کمرے میں کیرم بورڈ کے ارد گرد جمع تھے۔

معیز نے کہا"اب دو ہی راستے ہیں ۔ خود کوپاپا اور اردگرد کے لوگوں کی نگاہوں میں واپس لانے کے لیےیا تو تم محنت کرکے اس مرتبہ کی پوزیشن حاصل کرلو یا۔۔۔۔۔"

ارشد نے اس کو گھور کر اسکی طرف دیکھ کر اسکی بات کاٹتے ہوئے کہا:"سعید اور پڑھائ ،وہ بھی اتنی اچھی کے اس صدا کے ٹاپر سے جیت جائے۔ایسا خواب میں بھی ممکن نہیں ہے۔جس کا امکان ہی نہ ہو اسکی صورت بنانے کاکوئ فائدہ نہیں۔"

سب نے اسکی بات کی تائید کی اور میں صرف اسے دیکھتا ہی رہااور وہ مجھے مسکرا تا ہوا تائید کی متلاشی نگاہوں سے دیکھنے لگا۔

" پریشان کیوں ہو رہے ہو دوسری صورت ہے نا ۔کیوں نا ہم اسے اس محلے سے ہی نکال دیں اسکول سے بھی خود نکل جائے گا کچھ وقت بعد دلوں سے بھی نکل جائے گا۔" معیز نے اپنی بات آگے بڑھاتے ہوئے کہا۔

"یہ بہت ممکن  صورت ہے ۔" مجھے اس پر غصہ آگیا۔

" کیوں نہیں؟ یہ ممکن ہے، بلکہ یہی  حل ہے۔" اریب نے گوٹ سے نشانہ لگاتے ہوئے اکڑکر کہا۔

"پر کیسے؟؟" سب یک زبان ہوگئے۔

اریب نے سب کو زبردست چال بتائ۔ہم سب کے چہروں پر خوشیاں تھیں۔ اور میں پرسکون وادی میں کھو گیا تھا۔

-------------------

ہم سب ایک گھر کے سامنے تھے ۔ یہ ہماری گلی میں بالکل کونے  میں تھا۔ یہ برگد کے درختوں میں گھرا ہوا تھا ۔ اس کے باہر تقریباً دو گز دور  تک کچرے کا انبار تھا ۔ رات تو کیا دن میں بھی اس کے آس پاس کوئ نظر نہ آتاتھا۔ میں نے جب سے ہوش سنبھالا تب سے اسے خالی پایا تھا ۔ کبھی کوئ اسے دیکھنے تک نہیں آتا تھا ۔اسکی  بناوٹ کسی بنگلے کی طرح تھی لیکن گردش زمانہ نے اسے کچرا کونڈی بنادیا تھا۔

"صدیوں پہلے ایک انجینئر اس گھر میں رہا کرتاتھا۔ اسکی بیوی اسے بہت تنگ کرتی اور اسکا  جینا مشکل کرکے رکھتی تھی ۔ ہر وقت کی نوک جھونک  نے اسے ذہنی مریض بنا دیا تھا تنگ آکر اس نے زہر کھا لیا اور مر گیا۔ بھوت بن کر اس گھرکے ارد گرد منڈلاتا رہتا ہے۔ بیوی  ڈر کے مارے اپنے بچوں کو لے کر اپنے میکے چلی گئی ۔ اب صرف یہ بھوت ہے اور اس کی یادیں ہیں۔" معیز نے گھر کو دیکھتے ہوئے لرزتے ہوئے کہا۔

"واہ !بھئ بہت اچھی کہانی تم نے سنائی ۔ مجھے مزہ بالکل نہ آیا۔ اپنی مزید داستان کسی اور کو سنانا۔ میں مزید نہیں سن سکتا۔"فیصل نے منہ بناتے ہوئے کہا۔

"کیوں، آخر ایسا کیا تھا اس واقعہ میں؟" اریب اس کی طرف بڑھ کر بولا۔

"یہ بھوتوں کی باتیں کہانیوں میں اچھی لگتی ہیں ،حقیقی زندگی میں نہیں۔"فیصل نے اسکے دونوں کندھوں کو ہاتھوں سے پکڑتے ہوئے کہا۔

میں نے اسےچبوترے پر بٹھاتے ہوئے کہا:"دیکھو!ہمیں معلوم ہے تمہیں کتابیں بہت پسند ہے ۔ یہ تمہارا واقعی بہترین مشغلہ ہے لیکن کتابوں سے آگے جہاں اور بھی ہیں۔لکھاری حضرات اپنے اردگرد ہوتا ہوا جو دیکھتے ہیں اسے ہی وہ کہانیوں کا روپ دیتے ہیں۔اگر یہ بالکل بنا پرکی کوئ بات ہوتی تو آج ان کی کتابیں اتنی مشہور کیسے ہوتیں۔ خود تم نے کیسے پڑھ لیں وہ کہانیاں جن میں بھوتوں کا تذکرہ ہے۔"

فیصل نے جھلاتے  ہوئے کہا:" بھوت پریت کچھ نہیں ہوتے ، یہ صرف تم لوگوں کا ڈر ہے جو تمہیں یہ سب کہنے کے لیے اکسا رہا ہے۔" یہ کہ کر وہ اٹھنے لگا۔

"تمہارے نزدیک یہ انجینئر کا بھوت اوراس کے کرتوت محض جھوٹ کا پلندہ اور کہانیاں ہیں ۔ حقیقت سے اس کا کچھ تعلق نہیں؟"

میں بھڑک سا گیا۔

"دیکھو میرے پیارے۔ یہ بھوت کچھ نہیں ہوتے یہ تو محض اندر کا خوف ہوتا ہے جو مختلف شکلیں ڈھال کر ہمیں دکھائی دیتا ہے، ہم اسے بھوت سمجھ لیتے ہیں۔ "فیصل نے پیار سے کہا۔

"ٹھیک ہے تم ثابت کردو کہ اس گھر میں کوئی بھوت نہیں ہے۔"ارشد نے اس کو چیلنج کیا۔

" ٹھیک ہے۔ لیکن اگر میں نے ثابت کردیا تو اس کے بعد تم لوگ اس گھر سے متعلق قصے کہانیوں سے کسی کو کبھی نہیں ڈراؤ گے۔" فیصل نے کہا اور کچھ سوچنے لگا۔

ہم سب نےتائید بھری اور ایک دوسرے کی آنکھوں میں دیکھا اور آنکھوں ہی آنکھوں میں کہا:" ہم ہوگئے کامیاب۔"

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

"یہ لو ٹارچ ، تمہیں صرف اس سامنے کے دروازے سے داخل ہوکرپچھلے دروازے سے باہر  نکلنا ہے۔" ارشد  نے اسے ٹارچ تھماتے ہوئے کہا۔ نہ جانے کیوں اندھیری رات میں آسمان پر بادل مجھے رقص کرتے دکھائ دے رہے تھےاور چاند بھی خوب مسکرا رہا تھا۔

فیصل نے ٹارچ پکڑی اور اندر داخل ہوگیا۔ دروازے کا تالا پتھر سے توڑا ، پرانا مضبوط تالا ہونے کے باوجود وہ ایک وار سے ٹوٹ گیا۔

دروازہ کھولا تو وہ چرمراتا ہوا کھل گیا۔ فیصل اندر داخل ہوگیا۔ہم نے باہر سے دروازہ بند کردیا۔

" بس ہوگیا کام ۔ آج اس محلے میں  فیصل کی آخری رات ہوگی ۔" معیز نے میرے ہاتھ پر ہاتھ مارتےہوئے تالی دیتے ہوئے کہا۔

"بس آج کے بعد یہ اس خوفناک منظر کو روزانہ یاد کرتے ہوئے سوئے گا۔ "اریب نے کہا۔

"اس کے لیے یہ گھر نہیں یادیں ہوں گی،خوفناک یادیں!"میں نے کہا۔

اتنے میں اس کے شور کی آوازیں آنے لگیں۔

کیا ہوا ارشد تو باہر ہے، یہ ابھی سے کیوں شور مچا رہا ہے۔ہم حیران ہوئے منصوبے کے مطابق ارشد کے داخل ہونے کے بعد فیصل کی ڈر کی آوازیں آنا تھیں۔ہم حیران ہوئے۔

اس کی چیخیں مزید  بلند ہونے لگیں ۔

" کوئ مصیبت نہ آگئ ہو۔" میں نےکہا ۔

ہم فوراً دروازہ کھول کر اندر کی طرف بڑھے۔ ہم سب کی ٹارچ آن تھیں۔ہم سب کی نظریں فیصل کو ڈھونڈ رہی تھیں۔اچانک ہمیں دیوار کے پار سامنے کمرے میں  انسانی ہیولہ دکھائی دیا ، ہم سمجھ گئے  کے فیصل ہے۔ اس کے پاس جانے کے لیے جیسے ہی ہم نے اندر کمرے میں قدم رکھا اچانک کسی نے ہمارے منہ پر کپڑا رکھا اور ہم بے ہوش ہوگئے۔

ہمیں ہوش آیا تو ہم سب ایک کمرے میں بند تھے ۔  چاروں کے منہ اور ہاتھ پیر بندھے ہوئے تھے ۔ ہم سب کو کسی نے کرسی کے ساتھ باندھا ہوا تھا ۔ چاروں طرف سناٹا تھا ۔  پورےکمرے میں موم بتی کی دھیمی سی روشنی تاریکی کو مٹانےکی پرزور کوشش کر رہی تھی ۔  میرے ہوش میں آنے کے ساتھ    ہی میرے ساتھ معیز، اریب،ارشد اور فیصل کو بھی ہوش آگیا ۔ ہم نے ایک دوسرے کو آنکھوں ہی آنکھوں میں حیرانی کا اظہار کیا ۔ ہم سب کی نگاہیں یہی کہہ رہی تھیں کہ" برے پھنسے"۔

ہم اسی طرح ہی بے سدھ رسیوں میں بندھ ہوئے وہا ں سے نکلنے کا سوچ رہے تھے کہ  اچانک گیٹ کھلا ، ایک نحیف سا شخص میلی کچیلی حالت کا  وہاں سے نمودار ہوا ۔اس کے ہاتھ میں سگریٹ تھی ۔ اور اس کی آنکھوں  سے درندگی ٹپک رہی تھی ۔  دروازہ کھلنے سے معلوم ہوا کہ ہم کسی تہہ خانے میں ہیں ۔ دروازے سے سیڑھیاں بلکل اوپر کی طرف جارہی تھیں ۔ ایک خوف کی لہر میرے پورے بدن پر دوڑ گئی کہ ایک تو یہ ویران گھر اور دوسرا  ہم اس گھر کے تہہ خانے میں ۔  اس پر مزید پاگل سا یہ شخص جو کافی دیر سے ہمارے پاس کھڑا ہمیں صرف دیکھے ہی جا رہا تھا ۔

اس کی سگریٹ کے دھویں سے سانس لینےمیں ہمیں کافی تنگی ہورہی تھی۔

اس شخص نے معیز کے ہاتھ پیر کھولے اور اسے اپنے ساتھ    کمرے کی  دوسری طرف جہاں کافی اندھیرا تھا لے گیا ۔دروازہ کھلنے کی آواز آئی اور بند ہوگئی ۔

"اوہ تو یہاں ایک اورکمرا بھی ہے ۔"میں نے اپنے آپ سے کہا۔

تھوڑی دیر بعد  وہ پھر آیا اور اس بار  مجھے   کھول کر دوسرے کمرے میں لے گیا ۔ یہ کمرا کافی بڑا تھا۔ اس کمرے کی حالت پورے گھر کے مقابلے میں کافی بہتر تھی ۔  دیوار پر جالے کم  تھے ۔ کمرے کی دونوں طرف دو لالٹینیں  لٹکی ہوئی تھیں جنہوں نے کمرے کو اچھا خاصہ روشن کردیا تھا ۔ سامنے تین لوگ  ایک چادر بچھائے بیٹھے تھے  ۔ان کے چہرے سے وحشت ٹپک رہی تھی ۔ یہ چاروں ہی بالکل درمیانہ قدوقامت والے  اور صحتمند دکھائی دے رہے تھے۔

مجھے اس شخص نے ان کے ساتھ بٹھا دیا اور میرا منہ بھی کھول دیا ۔

"کیا نام ہے تمہارا ؟"

ان میں سے ایک نےرعب سے مجھ سے سوال کیا ۔

"سعید ۔"میں نے بڑی مشکلوں سے اپنا تھوک نگلتے ہوئے کہا۔ میری سانس تقریباً رکنے ہی والی تھی ۔ مجھ پر ان کی ہیبت طاری تھی۔

"ہمارا پتہ تمہیں کس نے دیا ! " ا س نے سختی سے مجھ سے سوال کیا

میں نے انہیں ساری روداد سنا دی ۔

"تم سب نے ایک کہانی پہلے سے یاد کی ہوئی ہے نا ۔۔ مجھے سچ سچ بتا ؤ  ۔"اس نے مجھے گلے سے پکڑا۔

دوسرے نے کہا"دیکھ لو، اگر ذرا ہوشیاری کی تو انجام صرف موت ہے۔ ہمیں اپنی جیل کی بالکل پرواہ نہیں ہے۔ "

میں نے ان سے  کہا کہ ہمیں واقعی نہیں معلوم  تھا کہ آپ لوگ یہاں ہیں نہیں تو ہم پولیس کے بغیر کیوں آتے۔

"یہ لوگ ایسے نہیں مانیں گے۔ان کا کچھ کرتے ہیں۔  اسے بھی باندھ دو۔۔" ان میں سے ایک نے کہا۔

پہلے والے شخص نے میرے  منہ اور ہاتھ کو باندھا اور کمرے کی دوسری طرف لے گیا اور مجھے دیوار کی طرف منہ کرکے کھڑا کردیا۔ وہاں پہلے سے ہی معیز اسی حالت میں کھڑا تھا۔

تھوڑی دیر بعد ہمارے ساتھ اریب بھی اسی طرح سے کھڑا ہوگیا ۔ ہم سب  ایک دوسرے کو بے بسی سے دیکھنے لگے۔

ایک دفعہ پھر کمرے کا دروازہ کھلا۔ اس مرتبہ اس شخص کے ساتھ فیصل تھا ۔ مجھے اچانک غصہ آگیا ۔ کہ یہ صرف اسی کی وجہ سے ہوا ہے۔ میں نے دل میں کہا اور زمیں پر پاؤں مارا  جس سے کمرے کی خاموشی ٹوٹ گئی ۔

"سیدھے کھڑے ہو لڑکے۔۔"

ان ساتھیوں کے پاس سے آواز آئی ۔

میں حیرت کا شکار تھا ۔ کمرے میں فیصل کے آتے ہی مجھ پر جوش ساتاری ہوگیا تھا ۔ ڈر کی جگہ غصے نے لے لی تھی ۔

میں نے خود سے کہا: " کیا واقعی فیصل اتنا برا ہے کہ مجھے اس جگہ بھی اس پر غصہ آرہا ہے۔" اچانک دروازے کی چٹخنی لگنے کی آواز آئی ۔کسی نے دروازہ بند کیاتھا۔

"اے لڑکے! یہ کیا حرکت ہے۔۔" ایک  آدمی غصے سے بولا۔

میں نے مڑ کر دیکھا تو یہ فیصل تھا جس نے ان ساتھیوں کے پاس بیٹھنے کےبجائے دروازہ کو  بند کرنا زیادہ مناسب سمجھا تھا۔

اریب نے میری طرف دیکھا:" یہ آج مروائے گا۔" اس نے اپنی  آنکھوں میں مجھ سے کہا۔

میں نے اثبات میں گردن ہلائی۔

وہ سب ساتھی کھڑے ہوگئے۔

اس پر مجھے پہلے ہی غصہ تھا ۔ اور اس کی یہ حرکتیں دیکھ کر میرے غصہ کی شدت بڑھ گئی تھی۔اس نے شرافت سے بیٹھے ہوئے لوگوں کو بدکانے کی کوشش کی تھی۔

وہ شخص دوبارہ اس کی طرف بڑھا اور اس کا ہاتھ پکڑنے لگا ۔

اچانک فضا میں ایک کراہ کی آواز گونجی۔یہ آواز فیصل کے مکے کی  تھی جو اس نے اس شخص کے منہ پر جڑا تھا ۔

ہم سب اس کو دیکھتے رہ گئے۔

وہ سب اس پر حملہ کرنے کی نیت سے آگے بڑھے لیکن فیصل شاید اسی دن کا انتظار کر رہا تھا ۔اس نے اپنی سیکھی ہوئی تمام چالیں ،تمام حربی طریقے ان پر آزمانا شروع کردیے۔ وہ ایک کے بعد ایک دیوارکی جانب ایک دوسرے پر گرنے لگے۔اور فیصل کامیابی کا نشان بناکر ان کے سامنے کھڑا تھا۔

فیصل نے ہمارے ہاتھ کھول دیے ۔ ہم سب نے ان  لوگوں کو باندھ دیا ۔

"چلو یہاں سے نکلتے ہیں اور پولیس کو اطلاع دیتے ہیں، اس سے پہلے کوئی انہیں یہاں سے لے جائیں" میں نے سب سے کہا ۔

ہم باہر کی طرف بڑھ گئے۔

"یہ کیا ؟؟؟"

ہم سب کے منہ سے نکلا ۔

ہم سب کسی دوسرے گھر  کے باہر تھے۔ یہ گھر بھی پہلے گھر کی طرح ویرانی اور خستہ حالی کا مظہر تھا۔

"اوہ ،تو  اس کا مطلب ہے کہ ان ڈاکوؤں نے ان ویران جگہوں کو اپنا ٹھکانا بنا رکھا ہے۔" میں نے کہا۔

اریب نے ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے کہا :"ہاں، اور لوگ سمجھتے ہیں کہ یہاں بھوتوں کی سرگرمیاں ہیں۔"

فیصل نے کہا:" ان خطرناک بھوتوں کے  ساتھیوں کے یہاں آنے سے پہلے نکلتے ہیں ۔"

ہم نے حامی بھری  اور گھر کی طرف دوڑ گئے۔

گھر پہنچنے پر پا پا کو ہم نے سب تفصیل سمجھائی ۔پاپا نے پولیس کو فون کیا اور پولیس نے ان سب کو اپنی حراست میں لے لیا۔

وہ سب ہمارے سامنے منہ چھپائے جارہے تھے اور ہمارے دل خوشی کے مارے بلیوں اچھل رہے تھے۔ہم سب ایک دوسرے کی طرف دیکھ کر مسکرادیے۔

پاپا نے ہم سے کہا :"دیکھو بیٹا جو ہوا اچھا ہوا ۔آپ لوگوں نے واقعی کمال کر دکھایا ہے۔لیکن آپ لوگوں  کو اکیلے ایسی جگہ نہیں جانا چاہیے تھا ۔اس لیے کہ وہاں   واقعۃ ً جنات بھی ہوسکتے ہیں  اور  چور ،ڈاکو وغیرہ بھی ہوسکتے ہیں ۔ویران جگہوں میں، کھنڈرات میں ،گندی جگہوں میں گندگی سے انسیت رکھنے والے جنات بسیرا کرلیتے ہیں۔ ۔جن بھوتوں کی کہانیاں بے شک کہانیاں ہوتی ہیں لیکن جنات کی بھی حقیقت ہے۔ ان کا بھی وجود ہے۔ یہ اللہ تعالی کی مکلف مخلوق ہوتے ہیں۔ جس طرح اللہ نے انسانون پر احکام نازل کیے اسی طرح سے جنات پر بھی  احکام نازل کیے ہیں ۔یہ اچھے اور برے دونوں طرح کے ہوتے ہیں ۔یہ انسانوں کو تکلیف بھی پہنچاسکتے ہیں  ۔ یہی وجہ ہے کہ نبی کریم ﷺ جب بیت الخلاء جایا کرتے تھے تو خبیث جن اور جنیوں سے  اللہ کی پناہ طلب کیا کرتے تھے۔ "

ہم سب نے پاپا سے وعدہ کیا ۔ ہم سب نے گرمجوشی سے ایک دوسرے کو گلے لگایا  اور ایک دوسرے کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے چل دیے۔

اس دن کے بعد سے نہ صرف میری فیصل سے نفرت ختم ہوگئی بلکہ میں نے اس سے کراٹے کی کلاسیں بھی لینا شروع کردیں۔ نہ جانے پھر کب مجھے اس فن کی دوبارہ ضرورت پڑجائے۔


 


Comments

Popular posts from this blog

نبی کریم ﷺ کی ہرقل کو دعوت

The time is money