wo kon tha?

 

وہ کون تھا؟

عبد الحنان صاحب  ایک دن ایک چڑیا گھر میں گھوم رہے تھے۔ انہوں نے دیکھا کہ ایک بچہ قریب ہی ایک سائیکل سے ٹیک لگائے کھڑا رورہا ہے۔ وہ اس بچہ کی جانب بڑھ گئے۔عبد الحنان صاحب   نے اس کا کندھا ہلایا  اور اس کا سر اوپر کی طرف کر کے کہا:"کیا ہوا ؟ کیوں رو رہے ہو؟"

بچے نے ان کی طرف دیکھا اور کہا:"میرے ممی پاپا پتہ نہیں کہاں چلے گئے ہیں۔"

عبد الحنان صاحب   نے کہا:" بیٹا اداس مت ہو، ذرا فکر مت کرو، اللہ خیر کرے گا اور تم یقینا اپنے ممی پاپا سے مل لوگے ۔" انہوں نے اسے چپ کروانے کی کوشش کی۔

"میں تمہاری مدد کرتا ہوں تمہارے ممی پاپا سے ملونے میں ،تم فکر مت کرو۔"وہ  اس بچے کو اپنے ساتھ کینٹین لے گئے۔

بچے نے کھانا خوب پیٹ بھر کر کھایا۔وہ تھوڑا حیران ہوئے ۔ انہوں نے اس سے کہا:"بیٹا اور لوگے؟"

بچے نے انکار میں گردن ہلائی اور انار کا جوس ختم کرنے لگا۔

انہوں نے بل ادا کیا تو بچہ باہر کی طرف بڑھ گیا اور عبد الحنان صاحب   سے کہنے لگا کہ میں یہ داغ دھونا چاہتا ہوں ۔

عبد الحنان صاحب   نے دیکھا کہ اس کے کپڑوں پر انار کا جوس گر گیا ہے اور کہیں کہیں روغن کے نشانات بھی لگے ہوئے ہیں۔انہوں نے کہا کہ بیٹا چلو میں دھلوادوں۔ وہ اسے واشروم میں لے گئے وہ داغ دھونے لگے لیکن وہ داغ دھلا نہیں۔

بچے نے کہا :"شاید صابن سے یہ داغ دھلےگا۔"

عبد الحنان صاحب   نے کہا :" تم رکو میں دکان سے صابن لے کر آتا ہوں۔"

بچے نے کہا:" انکل  آپ اپنا موبائل مجھے دےدیں۔ میں اکیلے ڈرجاؤں گا ۔میں وہاں بیٹھ کر موبائل پر گیم  کھیل لیتا ہوں۔"

عبد الحنان صاحب   نے کہا:" تم ان  بچوں کے ساتھ کھیل لو ۔"انہوں نے وہاں پر فٹبال کھیلتے ہوئے بچوں کی طرف اشارہ کیا۔

بچے نے کہا:" وہ سب مجھ پر ہنسیں گے، میرا مزاق بنائیں گے ،مجھے گندا گندا کہیں گے۔"

عبد الحنان صاحب   نے کہا:" چلو چھوڑو، تم یہ پکڑو اور وہاں سکون سے بیٹھ کر کھیلو۔"انہوں نے بچے کو موبائل حوالے کردیا اور خود دکان چل دیے۔

صابن خریدنے کے  بعد عبد الحنان صاحب   جب وہاں پہنچے تو انہوں نے دیکھا کہ وہا ں کوئی نہیں ہے۔انہوں نے خوب ڈھونڈا انہیں بچہ دکھائی نہیں دیا۔ انہوں نے کھیلنے والے بچوں سے پوچھا کہ کیا تم نے یہاں بچے کو دیکھا ہے ۔ کچھ بچوں نے نفی میں گردن ہلادی۔ ایک بچہ آگے بڑھتے ہوئے کہنے لگا۔" انکل!  میں نے دیکھا تھا کچھ لوگ اسے اپنے ساتھ لے گئے تھے۔شاید اس کے ماں باپ تھے۔"

عبد الحنان صاحب   نے سکون کی سانس لی کہا:" شکر ہے کہ اس کے ماں باپ اسے مل گئے وہ بچہ بہت پریشان ہوگیا تھا۔ شکریہ بچوں تم لوگوں کا ۔"

 عبد الحنان صاحب   وہاں سے اپنے گھر چل دیے۔

انہوں نے گھر پہنچتے ہی  اپنی بیگم صاحبہ سے کھانا لگانے کے لیے ۔

بیگم نے ان کی طرف  دیکھاوہ بہت خوش نظر آرہے تھے۔  کہا:"ماشاء اللہ بڑے خوش دکھائی دے رہے ہو۔ خیریت تو ہے۔"

عبد الحنان صاحب   نے سکوں سے صوفے پر بیٹھتے ہوئے کہا: بس بات ہی خوشی کی ہے وہ بچہ واقعی بہت پیارا تھا۔

بیگم صاحبہ نے کہا:" کیا مطلب ؟؟"

 انہوں نے اس کے سامنے ساری داستان رکھ دی۔  بیگم صاحبہ نے زور کی سانس لی اور کہا:"  آپ کا سوشل ورک کچھ زیادہ ہی پھیلتا جارہا ہے۔ کبھی مجھ پر بھی توجہ دے لیا کریں ۔ کب سے کہہ رہی ہوں ٹھٹھہ گھمانے لے جاؤ لیکن مجال ہے کہ تم کبھی اس بارے میں سوچو۔"

 عبد الحنان صاحب   نے کہا:" سوچ بھی لیا اور ارادہ بھی کر لیا میں نے ایک ہفتے کی چھٹی لے لی ہے بس اگلے ہفتے ہی ہم جارہے ہیں۔

بیگم صاحبہ  نے کہا:" سچی ؟؟؟ آ پ کو مجھ پر رحم آہی گیا۔"

 اتنے میں ان کی آیا نے کمرے میں داخل ہوئی اور کہا:"کھانا لگ گیا ہے۔"

عبد الحنان صاحب   نے بیگم صاحبہ کی طرف دیکھا اور کہا "چلیے ۔"دونوں ہنسی خوشی چل دیے۔

کھانے کی ٹیبل پر آیا دوبارہ آئ اور اس نے کھانے کے بارے میں پوچھا کہ کچھ چاہیے کیا؟

عبد الحنان صاحب   نے کہا :"کسی چیز کی ضرورت نہیں ہے۔ضرورت ہوگی تمہیں بلالیں گے۔"

آیا پلٹنے لگی پھر واپس آئی اور کہا:"صاحب!  وہ فون آیا تھا۔ کوئی کہہ رہا تھا کہ انیس صاحب سے کہنا کہ اپنے نمبر پر فون کر لیں۔"

بیگم صاحبہ نے کہا :"اپنے نمبر پر ؟"

عبد الحنان صاحب   نے کہا:" ہاں، شاید اس بچے کے ماں باپ کا فون ہوگا موبائل لوٹانے کے لیے کیا ہوگا اس بچے نے میرا موبائل گیم کھیلنے کے لیے لےلیا تھا۔"

بیگم صاحبہ نے سکون کی سانس لی :"اچھا۔"

عبد الحنان صاحب   نے فون ملایا دوسری طرف سے آواز آئی

"السلام علیکم،"

عبد الحنان صاحب   نے جواب دیا:"وعلیکم السلام، جی میں عبد الحنان بات کر رہا ہوں۔"

"اچھا،اچھا، عبد الحنان صاحب! آپ نے فون کرہی لیا۔آپ کو بہت یاد کررہا تھا میں۔میرا نام اثیر ہے۔آپ سے بہت سکون ملا مجھے۔ آپ نے میرے بچے کا بہت خیال رکھا۔ جتنا شکریہ میں آپ کا ادا کرنا چاہوں میں نہیں کرسکتا۔آپ کو تکلیف تو بہت ہوئی ہوگی؟"

عبد الحنان صاحب  نے کہا:"نہیں بھئی اس معصوم سے بچے کے ساتھ کچھ پل گزار کر مجھے بھی بہت ہی خوشی ہوئی تھی۔ مجھ پر کوئی بار نہیں گزرا۔"

اثیر صاحب نے کہا:"بیٹے نے آپ کے بارے میں بتا یا، اس وقت سے آپ سے ملنے کے لیے بے چین ہوں۔ کیا آج آپ شام کی چائے میرے ساتھ میرے گھر پر نوش فرمائیں گے۔ اس بہانے آپ سے مل بھی لیں گے اور آپ سے کچھ سیکھ بھی لیں گے۔"

عبد الحنان صاحب   نے کہا:"چلیں ٹھیک ہے، یقیناً آج کی شام شاندار ہوگی۔"

عبد الحنان صاحب   نے دروازے کی گھنٹی بجائی ، اثیر صاحب نے دروازہ کھولا اور انہیں گلے لگاتے ہوئے کہا:"السلام علیکم عبد الحنان صاحب  ،خوش آمدید۔"

"وعلیکم السلام بھئی ماشاء اللہ گھر تو آپ کا بہت شاندار ہے۔"

"صرف اللہ کا فضل ہے۔"اثیر صاحب نے کہا۔

آثیر صاحب نے عبد الحنان صاحب   کو صوفہ کہی طرف اشارہ کیا اور کہا:"عبد الحنان صاحب! بیٹھیے یہاں صوفہ پر۔"

اثیر صاحب عبد الحنان صاحب   کے قریب صوفہ پر بیٹحنے لگے۔"جی، تو بہت مصروف ہیں آپ ۔ آپ کا موبائل جب سے ہمارے پاس آیا ہے ہم  اندازہ نہیں کرپارہے کہ دنیا میں کوئی اتنا مصروف بھی ہوسکتا ہے۔ مستقل کال پر کال۔ کاروبار کے ساتھ ساتھ کافی دوسری سرگرمیوں میں پیش پیش   ہیں آپ۔ مجھے لگتا ہے کہ فلاحی اداروں میں بھی اتنا کام نہیں ہوتا ہوگا۔"

عبد الحنان صاحب   نے کہا:"بس بس بھائی آپ نے تو کافی زیادہ کہہ دیا ۔ بس بندہ جتنا ہوسکے اتنا خدمت خلق میں لگنے کی کوشش کرتا ہے۔جیتے جی لوگ خوش ہوں اور مرنے کے بعد کوئی دعائیں کرنے والا ہو۔"

اثیر صاحب نےکہا:"ماشاءاللہ بہت اچھے نظریات ہیں آپ کے۔لیجیئے، چائے آگئی نوش فرمائیے۔"

عبد الحنان صاحب   نے کہا:"شکریہ۔"

عبد الحنان صاحب   نے ادھر ادھر دیکھا اور کہا:"اچھا اثیر  صاحب مجھے وہ بچہ نظر نہیں آرہا کیا نام ہے اس کا؟"

"ریحان۔۔ کیا آپ اس سے ملنا چاہ رہے ہیں۔"اثیر صاحب نے کہا۔

"ہاں،بالکل ،ماشاءاللہ بہت پیارا بچہ ہے۔" عبد الحنان صاحب   نے کہا۔

"تو چلیے اندر چلتے ہیں۔" اثیر صاحب نے کہا۔

وہ انہیں ایک کمرے میں لے گئے ۔ وہاں وہ بچہ کرسی پر بیٹھا رسیوں میں جکڑا ہوا تھا۔"لیجیے یہ رہا وہ پیا را سا بچہ۔"

عبد الحنان صاحب  نے  فکرمندی سے کہا :"آپ نے اسے قید کیوں کیا ہوا ہے؟"

"اس کی وجہ آپ ہیں۔" اثیر صاحب نے سکون سے جواب دیا۔

"میں " عبد الحنان صاحب   حیران رہ گئے۔

"میں نے ایسا کیا کیا؟"انکی پریشانی دیدنی تھی۔

"یہ اس قیدخانے میں پڑا رہے گا اور مر جائے گا"اثیرصاحب کا سکون برقرار تھا۔

"مگر کیوں؟ آپ ایسا کیسے اپنے بچے کے ساتھ کر سکتے ہیں؟" عبد الحنان صاحب   پریشان تھے۔

"اس بچے کو ہم نے اغوا کیا تھا۔اس کے پاس سے آپ کا موبائل ملا تو ہمیں اندازہ ہوا کہ یہ کوئی معمولی چیز نہیں ہے۔ پھر جب اس سے تفصیل لیں تو ہمیں یقین آگیا کہ ہم ترقی کی اس دوڑ میں  بہت آگے نکلنے والے ہیں۔"اثیر صاحب نے کہا۔

"دیکھو میں پولیس کو فون کردوں گا۔" عبد الحنان صاحب   نے کہا۔

"شاید آپ بھی اس کمرے میں اس بچے کے ساتھ فنا ہونا چاہ رہے ہیں۔"اثیر صاحب کا لہجہ سخت تھا۔

"آخر آپ چاہتے کیا ہیں۔" عبد الحنان صاحب   نے کہا۔

"آپ کی شوپیس کی فیکٹری۔ بس۔"اثیر صاحب نے بتادیا۔

"کیا مطلب؟؟" عبد الحنان صاحب   حیران تھے۔

"جی ہاں، میں نے کچھ زیادہ تو نہیں مانگ لیا۔ آپ کے پاس اور بھی ذرائع آمدنی  ہیں۔ آپ اس جیسی دوبارہ کتنی ہی فیکٹریاں قائم کرسکتے ہیں۔ اس میں اتنا پریشان ہونے کی ضرورت کیوں؟ آپ اس فیکٹری کومیرے حوالے کردیں ورنہ اس بچے کی لاش آپ کو کہیں نہ کہیں مل ہی جائے گی اور اس کے ذمہ دار آپ ہوں گے۔"اثیر صاحب نے کہا اور وہاں سے چل دیے۔

اثیر صاحب کے ساتھیوں نے عبد الحنان صاحب   کے ہاتھ میں پراپرٹی کے کاغذات رکھ دیے۔

عبد الحنان صاحب   ہاتھ میں کاغذات تھامےہوئے کبھی بچے کی حالت دیکھتے اور کبھی ہاتھ میں موجود کاغذات دیکھتے۔ انہوں نے اس کاغذ پر سائن کردیے۔اور اثیر صاحب کی طرف چل دیے۔

"یہ لو میں نےسائن کردیے ہیں۔ اب اس بچے کوچھوڑدو۔" عبد الحنان صاحب   نے کہا۔

"چلو ٹھیک ہے آپ کی بات ماننے سے ہمیں خوشی ہوگی۔" اثیر صاحب نے کہا۔

"اس بچے کو کھول دو۔"ان کے ساتھیوں نے بچے کو کھول دیا۔

"چلو بیٹا چلتے ہیں۔" عبد الحنان صاحب   نے بچے سے کہا۔

"کہاں لے کر جاؤگے عبد الحنان صاحب یہ اس کا اپنا گھر ہے۔" اثیر صاحب نے کہا۔بچہ آزاد ہوتے ہی سیدھا اپنے پاپا کے پاس پہنچ گیا۔

"تم۔۔ تم لوگوں نے اچھا نہیں کیا میرے ساتھ۔" عبد الحنان صاحب   کو ایک دم غصہ آگیا۔

"عبد الحنان صاحب اگر آپ جانا چاہ رہے ہیں تو جائیں ورنہ رکیے رات کا کھانا کھا کر جائیے گا۔ مہمانوں کے کمرے میں آپ کے قیام کا بندوبست کردیا گیا ہے۔ اطمینان سے رہیے گا۔" اثیر صاحب نے سکون سے ان کی طرف دیکھا اور کہا۔

"بہت برے ہو تم لوگ بہت برے۔" عبد الحنان صاحب   نے کہا اور وہاں سے چل دیے۔

"کیا ہوا عبد الحنان بھائی اتنا پریشان بیٹھے ہو؟" ان کے پڑوسی انصر نے ان کے برابر چبوترے پر بیٹھتے ہوئے کہا۔

عبد الحنان صاحب   نے ساری روداد ان کے گوش گزار دی۔

"اوہ، تو یہ معاملہ ہے، افسوس کی بات تو ہے کچھ لوگ برائی کی تمام حدیں پار کردیتے ہیں، لیکن میرے بھائیآپ کو سمبھل کر چلنا چاہیے تھا۔ یہ بات ٹھیک ہے کہ۔ ایک مسلما ن ہونے کے ناطے ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہم دوسرے پریشان حال مسلمان کی پریشانی ختم کریں ۔اپنے مومن بھائی کے ساتھ اس کے دکھ درد میں ، اس پر آئی مصیبتوں کی تدفعیہ کے لیے اس کے ساتھ کھڑے ہوں۔ اس کی خوشیوں میں شریک ہوں۔ ایک اچھا باہمی محبت اور بھائی چارگی والا معاشرہ ہم تشکیل دیں۔لیکن یہ بات بھی یاد رکھو کہ نیکی حسن چاہتی ہے۔آپ کو اس محبت اور بھائی چارگی کی خاطر اپنا اپنے متعلقین کا نقصان نہیں کرنا چاہیے۔اپنے دل دماغ اور آنکھوں کو کھول کر معاشرے میں رہنا چاہیے۔ جہاں آپ ﷺ نے فرمایا ہے کہ مومن بھولا بھالا شریف ہوتا ہے تو  وہیں آپ ﷺ نےدوسری احادیث بیان فرمائیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہمومن بے وقوف اور نابلد نہیں ہوتا کہ کسی کی بھی باتوں میں آکر اپنا نقصان کرتا پھرے۔ چنانچہ ایک صحابی تھے انہیں خرید و فروخت میں دھوکہ ہوجایا کرتا تھا انہوں نے نبی کریم ﷺ سے عرض کیا کہ وہ خرید و فروخت میں دھوکہ کھا جاتے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تم کچھ خریدا کرو تو کہہ دیا کرو کہ اس میں کوئی دھوکہ نہ ہونا چاہئے۔ جس کی وجہ سے انہیں اختیار ملا کہ اگر کوئی دھوکہ پایا گیا تو وہ اس چیز کو واپس کرسکتے ہیں۔یہاں حکمت عملی نبی کریم ﷺ نے بیان فرمائی جس سےوہ نقصان سے بچ جائیں ۔ اسی طرح ایک اور حدیث میں آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ مومن کو ایک ہی سوراخ سے دو مرتبہ نہیں ڈسا جاتا۔ اس کا مطلب ہے کہ وہ جس سے ایک مرتبہ نقصان اٹھالے دوبارہ اس کے پاس نہیں جاتادوبارہ وہی کام نہیں کرتا کہ بار بار اس سے نقصان حاصل کرے۔جس سے معلوم ہوا کہ مومن کو کوشش کرنی چاہیے کہ نقصاں اٹھانے سے بچے ۔میرے بھائی خدمت خلق کا جذبہ آپ کے اندر قابل تقلید ہے لیکن لوگوں کو برکھنے کی صلاحیت بھی بہت ضروری ہے۔بغیر سوچے سمجھے ہر کس و ناکس کے ساتھ نیکی کرنا بھاری بھی پڑھ سکتا ہے۔"

عبد الحنان صاحب  نے  کہا؛"سمجھ گیا میرے بھائی آج سے میں نیکی کروں گا لیکن سوچ سمجھ کر۔"

 

Comments

Popular posts from this blog

نبی کریم ﷺ کی ہرقل کو دعوت

بھوت بنگلہ کے شکار

The time is money