وقت ایک نعمت
وقت ایک نعمت
"واہ! کیا شاٹ مارا ہے۔"
"زبردست!
تم نے کمال کر دیا۔"
صائم کے
دوستوں نے اس کے گرد گھیرا ڈالا اور اسے خوب سراہا۔
صائم کی امی
نے صائم کو اپنے کمرے کی کھڑکی سے باغ میں جھانکتے ہوئے پکارا،
"صائم
بیٹا، آجاؤ! ٹیوشن پڑھنے کا وقت ہو گیا ہے۔"
صائم نے اپنی توجہ بال پر رکھتے ہوئے کہا: "میں
تھوڑی دیر میں آتا ہوں۔"
صائم کی امی
نے کہا،:"کب سے تھوڑی دیر، تھوڑی دیر کی رٹ لگا رکھی ہے، آ جاؤ جلدی سے!"
صائم نے اپنی
امی کی بات ان سنی کی اور اپنے دوست نمیر سے کہا:
"بال
کر اؤ۔"
اس کے سارے
دوست حیرانی سے اسے دیکھ رہے تھے، ہر کوئی یہ سمجھ رہا تھا کہ ابھی صائم اپنی امی
کی بات مان لے گا اور کھیل چھوڑ کر چلا جائے گا اور ان سب کو بھی کھیل چھوڑنا پڑے
گا۔
ریاض نے
صائم سے کہا،:"چلو یار، کھیل بند کرتے ہیں، تمہاری امی کب سے تمہیں بلا رہی ہیں،
چلے جاؤ۔والدین کی اطاعت فرض ہے۔"
صائم نے اسے
غصے سے دیکھا اور بیٹنگ کے انداز میں پچ پر بلا لہرا کر کہا:
"اب
تم مجھے نصیحتیں مت کرو۔"
صائم کی امی
صائم کو کھڑکی سے دیکھتی رہیں اور بڑبڑائیں،
"نہ
جانے اس کا کیا بنے گا۔۔۔"
۔۔۔©©۔۔۔©©۔۔۔©©۔۔۔
صائم، سمن
اور ان کے امی پاپا، رات کے وقت ڈائننگ ٹیبل پر بیٹھے تھے۔
ان کی امی
نے کھانا لگایا، پاپا نے موبائل سائیڈ پر رکھا اور کہا:
"چلو،
بسم اللہ کرو۔"
سب نے اللہ
کا نام لے کر کھانا شروع کر دیا۔
سمن نے
خاموشی کو توڑا، "پاپا، آج صائم ٹیوشن
پڑھنے نہیں گیا تھا، ٹیچر نے مجھے اس کے نہ آنے پر خوب ڈانٹا۔"
امی نے کہا:"ہاں، میں اسے بار بار بلا رہی تھی کہ
ٹیوشن پڑھنے چلے جاؤ لیکن یہ ہے کہ تھوڑی دیر کا کہہ کر ٹال گیا۔"
صائم نے کہا:"پاپا، آج میرا میچ اتنا زبردست چل
رہا تھا، میں نے پوری سنچری بنائی!"
پاپا نے اس
کی طرف دیکھتے ہوئے پلیٹ سے نوالہ اٹھا کر کہا:"بہت
خوب بیٹا، شاباش! لیکن تمہیں کھیل کے ساتھ
ساتھ پڑھائی پر بھی دھیان دینا چاہیے۔"
سمن اور ان
کی امی نے منہ بنایا۔
ان کی امی
نے کہا:"آپ اسے کچھ
کہتے ہی نہیں ہیں، یہ کبھی اسکول جاتا ہے کبھی نہیں۔ پڑھائی میں بالکل دلچسپی نہیں
لے رہا۔آپ کے لاڈ پیار نے اسے بالکل بگاڑ دیا ہے، مجھے سمجھ ہی نہیں آ رہا کہ کل
کو یہ کیا بنے گا۔"
پاپا نے کہا
:" تم کیوں اتنا پریشان ہورہی ہو؟ یہ تو ایک عام سی بات ہے۔ ہر بچہ کھیل میں
دلچسپی رکھتا ہے۔سب ماہر لوگ بچپن میں ایسے ہی ہوتے ہیں، دھیرے دھیرے سمجھ جاتے ہیں۔ابھی
تو اس کے کھیلنے کی عمر ہے، تم کیوں اتنا تنگ ہورہی ہو؟
امی اور سمن
نے صائم کی طرف فکر مندی سے دیکھا اور اپنے کھانے میں مشغول ہو گئیں۔
۔۔۔©©۔۔۔©©۔۔۔©©۔۔۔
سمن اپنے
کمرے میں ہوم ورک مکمل کر رہی تھی کہ اسے باہر کرکٹ میچ کی کمنٹری کی آواز آئی۔ اس
نے کھڑکی سے باہر دیکھا تو صائم موبائل میں کھویا ہوا تھا۔
سمن اس کے
پاس گئی اور اس کے برابر میں جا کر بیٹھ گئی، صائم بدستور اپنے موبائل میں مگن
رہا۔
سمن نے اس کی
طرف چپس کا پیکٹ بڑھایا، تو صائم نے ناراضگی سے دیکھا اور دوسری طرف ہو کر موبائل
میں گم ہو گیا۔
سمن نے اس
سے موبائل چھین لیا اور بند کر دیا۔ وہ اس سے چھیننے کی کوشش کرنے لگا۔
سمن نے کہا:
"جب تک میرا بھائی مجھ سے ناراض ہوگا، میں یہ موبائل استعمال نہیں
کرنے دوں گی۔"
صائم نے کہا
:"تمہیں میری ناراضگی کی کب پرواہ ہے؟
تم جان بوجھ کر پاپا کو مجھ سے ناراض کرنے کی کوشش کرتی ہو تاکہ وہ مجھ سے ناراض
رہیں۔"
سمن نے کہا:"بھلا میں کیوں تمہیں پاپا کی نظروں میں
شرمندہ کرنے لگی؟ میری تمہارے ساتھ کوئی دشمنی تو نہیں ہے۔"
اس نے صائم کی
تھوڑی کو پکڑتے ہوئے کہا۔
صائم نے کہا:"تو پھر میری شکایتیں مت کیا کرو۔ تمہیں
پڑھنے کا شوق ہے تو خوب پڑھو، لیکن مجھے مت ٹوکاکرو ۔"
"تو
تم کیا کرو گے؟" سمن نے اس کی طرف دیکھ کر چپس کھاتے ہوئے سوال کیا ۔
صائم نے کہا:"میں پاپا کا بزنس سنبھالوں گا۔"
"اوہ،
اچھا، ویری گڈ!" سمن نے زور سے قہقہہ لگایا۔
"اب
تم میرا مذاق اڑاؤ اور کہو کہ مجھے تم سے بہت محبت ہے!" صائم نے جلتے ہوئے
کہا۔
سمن نے اپنی
ہنسی پر قابو پاتے ہوئے کہا:"بھائی،
پاپا کا بزنس سنبھالنے کے لیے تو اور زیادہ پڑھائی کی ضرورت ہوگی۔بڑے بڑے پروجیکٹ
ہوتے ہیں۔اعلی درجہ کےپڑھے لکھے لوگوں سے پاپا کی میٹنگ ہوتی ہے، تو آپ اسے کیسے کرو گے؟ کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ پاپا خود
کتنے پڑھے لکھے ہیں؟"
"تو
میں نے بھی انٹر کیا ہوا ہے اور اچھے نمبر سے پاس ہوا ہوں، اور آگے بھی پڑھ رہا
ہوں۔" صائم نے اسے دیکھتے ہوئے ترچھی نظر سے کہا۔
سمن نے کہا:"ہاں معلوم ہے کہ بغیر پڑھے شاندار
نمبر لینے کی وجہ کیا ہے؟ پاپا کا نام اور کارتوس کا کمال!" سمن نے طنزیہ
لہجے میں کہا۔
صائم نے اس
کی طرف دیکھ کر منہ بنایا اور کہا:"بس
رہنے دو، بزنس سنبھالنے کے لیے قابلیت کی ضرورت ہے اور وہ مجھ میں کوٹ کوٹ کر بھری
ہوئی ہے۔"
سمن نے اسے
تنگ کرتے ہوئے کہا:
"اچھا،
واقعی؟ اس خوش فہمی کی وجہ؟"
صائم نے اکڑ
کر سکون اور اطمینان سے کہا:
"جی، یہ پاپا کا فرمان ہے۔"
سمن نے سر
پکڑ لیا۔
سمن نے کہا : سنو صائم ! وقت اللہ تعالی کی طرف سے ایک بہترین
تحفہ ہے۔ برف کے پگھلنے کی طرح یہ بھی گزرتا رہتا ہے۔ہمیں اس نعمت کی قدرکرنی چاہیے۔
اگر ہم اس کو فضول، بے فائدہ کاموں میں
صرف کرتے رہیں گے تو اس نعمت کو کھو دیں گے ۔ وقت کی ناقدری کا ایک ہی نتیجہ ہےاور
وہ ندامت ہے۔سب سے بڑھ کر یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ نے بھی ہمیں اس وقت کی قدر کرنے کی
تاکید کی ہے۔ فرمایا:
”دو نعمتیں
ایسی ہیں کہ اکثر لوگ ان کی قدر نہیں کرتے، صحت اور فراغت۔“
جب انسان کسی بیماری کاشکار نہیں ہوتا، جوان ہوتا ہے تو وہ وقت
کی قدر نہیں کرتا ۔ اپنے آپ کو فضول کاموں میں لگائے رکھتا ہے ،لیکن جب یہ وقت
گزرجاتا ہے، بیماری آجاتی ہے یا بڑھاپا آتا ہے پھر وہ چاہ کر بھی اپنی خواہشیں پوری نہیں کرپاتا
۔اسے اپنے گزر اوقات کے لیے مزدوری کرنی پڑتی ہے جس کے لیے اسے طاقت کی ضرورت ہوتی
ہے جسے وہ اپنی جوانی کی امنگوں میں کھو دیتا ہے۔ اس وقت کو کھونے سے بچاؤ ۔ اپنے
فراغت کے لمحات کو کسی تخلیقی کام میں صرف کرو ۔ اپنی کمزوریوں کو ختم کرو ۔ اپنی
مہارتیں بڑھاؤ۔ وقت کی قدر کرو اس سے پہلے کے ہاتھ سے نکل جائے۔ کسی شاعر نے کیا
خوب کہا ہے۔
ہے وہ عاقل جو کہ آغاز میں سوچے انجام
ورنہ ناداں بھی سمجھ جاتا ہے کھوتے کھوتے
سمن نے صائم کا موبائل صائم کو دیا اور اپنے کمرے کی طرف چل
پڑی۔
۔۔۔©©۔۔۔©©۔۔۔©©۔۔۔
"ماشاءاللہ!
آج میرے بیٹے نے ایم بی اے مکمل کر لیا ہے، آپ سب کی دعاؤں اور محبتوں کے زیر سایہ
آج سے ہمارے بزنس کی لیڈ میرا بیٹا کرے گا، اب اس آفس کی باگ ڈور میرے بیٹے کے ذمہ
ہے۔"
ماشاءاللہ!سبحان
اللہ! مبارک ہو! ہر طرف سے صائم اور اس کے پاپا کے لیے مبارکباد کے الفاظ گونجنے
لگے۔
بیٹے کو اس
طرح مرکز نگاہ دیکھ کر امی اور سمن کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو آگئے۔
ماں نے اس
کے گلے میں ہار ڈالا اور خوشی سے اسے گلے لگایا۔
"میرا
پیارا بچہ!" یہ کہہ کر انہوں نے اس کے چہرے پر ہاتھ پھیرا۔
سمن نے بھائی
کے منہ میں مٹھائی ڈالتے ہوئے کہا، "بہت بہت مبارک ہو تمہیں!"
صائم نے
کہا، "میں نہ کہتا تھا کہ میری جگہ تو پہلے سے ہی لکھی ہوئی ہے!"
سمن نے
مسکرا کر کہا، "ہاں، بہت خوب،مجھے تمہاری قابلیت پر بھروسہ ہے۔ بس اب تم پاپا
کے ساتھ رہ کر ماہر ہوجاؤگے!"
۔۔۔©©۔۔۔©©۔۔۔©©۔۔۔
صبح ناشتے
پر سب ڈائننگ ٹیبل پر جمع تھے ۔
سمن کے
دونوں گال کھینچتے ہوئے صائم اس کے برابر بیٹھنے لگا۔
سمن نے اس کی
طرف پراٹھا بڑھاتے ہوئے کہا:"لیجیے
جنا ب چیئرمین صاحب، میٹھے لوگوں کی جانب
سے میٹھا پراٹھا۔"
صائم نے
پراٹھالیتے ہوئے کہا:" ہاں!
یہ ہم جیسے شیریں لوگوں کی صحبت کا کمال ہے۔"
سب خوش تھے۔
پاپا، جو کب سے خاموش تھے، اب ہنسنا بھی بند کر دیا اور بالکل سیدھے بیٹھ گئے۔
انہیں اپنے
اندر شاید کچھ تبدیلی سی محسوس ہوئی تھی۔
وہ اٹھے اور
باہر جانے لگے۔
امی نے کہا،
"ارے! ناشتہ تو پورا کر لیں۔"
"نہیں،
بس میں نے کر لیا، تم کرو ناشتہ۔" انہوں نے اپنے قدم کمرے کی طرف بڑھا دیے۔
صائم اور
سمن نے امی کی طرف پریشان نظروں سے دیکھا۔
ان کی امی نے کہا:"تم
ناشتہ کرو، میں دیکھ لوں گی۔"
۔۔۔©©۔۔۔©©۔۔۔©©۔۔۔
"صائم،
سمن، جلدی آؤ!"
ماں نے کمرے
میں داخل ہوتے ہی صائم اور سمن کو پکارا۔
سب بھاگتے
ہوئے آئے۔
کمرے میں
پاپا غنودگی کی حالت میں تھے اور امی انہیں ہوش میں رکھنے کی کوشش کر رہی تھیں۔
انہوں نے فوراً ڈاکٹر کو بلایا اور سب انہیں ڈاکٹر کے پاس لے گئے۔
ہسپتال میں
ڈاکٹر نے انہیں چیک کیا اور کہا:"انہیں ہارٹ اٹیک آیا ہے اور ان کی حالت کافی
تشویشناک ہے۔"
سب ان کے لیے
دعائیں کرنے لگے۔
کافی دیر
بعد ڈاکٹر صاحب دوبارہ آئے اور کہا، "ہم بہت کوششوں کے باوجود آپ کے پاپا کو
بچانے سے قاصر رہے ۔وہ خالق حقیقی کے پاس جاچکے ہیں۔"
سب صدمے سے
بے ہوش ہونے لگے اور سب کی حالت خراب تھی۔
سارے رشتہ
دار جمع ہوگئے ۔ سب اس خبر سے بے حال تھے۔
۔۔۔©©۔۔۔©©۔۔۔©©۔۔۔
"
افتخار صاحب !صائم صاحب کو تو بات ہی سمجھ نہیں آتی، یہ کیا پروجیکٹ پر گفتگو کریں
گے؟"
صائم کی
کمپنی کے ڈائریکٹر سہیل صاحب نے افتخار صاحب کے آفس میں ان کی سیٹ کے سامنے والی
کرسی پر بیٹھتے ہوئے کہا۔
"ہاں،بڑی
سیٹ پر بیٹھنا آسان ہے،لیکن اس کا حق ادا کرنا مشکل۔ مجھے نہیں لگتا کہ ان سے
ہوپائے گا!" افتخار بھائی نے بے فکری سے کہا۔
"ارے،
ذرا سمجھ نہیں ہے اسے بزنس کی، آسان آسان سے پروجیکٹ اب تک مکمل نہیں ہوئے، سب وہیں
کے وہیں ہیں جہاں ان کے پاپا چھوڑ کر گئے تھے!" سہیل صاحب نے پریشانی کا اظہار کیا۔
"بس، اب
کمپنی کے آخری لمحات چل رہے ہیں!" افتخار
صاحب نے ان کی طرف دیکھا، ان کے چہرے پر طنزیہ مسکراہٹ تھی۔
"کیا
بنے گا اس نئے پروجیکٹ کا؟ شہر کے سب سے بڑے بزنس مین افنان صاحب کل آ رہے ہیں
صائم صاحب سے ڈیل کرنے، کیا معلوم وہ کیا کریں گے؟"
سہیل صاحب
نے تشویش ظاہر کی۔
۔۔۔©©۔۔۔©©۔۔۔©©۔۔۔
صائم اپنا
سر پکڑے اپنے آفس میں بیٹھا تھا، اس کے سامنے اس کا ماضی بھیانک انداز میں گردش کر
رہا تھا۔
"کاش کہ
میں اس وقت پڑھ لیتا، کاش کہ میں اپنا وقت فضول کھیل کود اور تفریح میں ضائع نہ
کرتا۔ اگر میں نے اپنے پاپا کے ساتھ کام کیا ہوتا، کچھ وقت لگایا ہوتا، یا کسی بھی
کام سے آیا ہوتا، تو مجھے آج اتنی مشکل نہ ہوتی۔"
اس کے گالوں
سے آنسو موتیوں کی طرح ایک کے بعد ایک گر رہے تھے۔
اچانک آفس
کا گیٹ بجا، صائم نے فوراً اپنے آنسو پونچھے اور اس نے اپنی سیٹ پر لگے بٹن کو دبایا۔
دروازہ کھلا
اور سامنے اس کی بہن سمن موجود تھی۔
"کیا
ہوا صائم؟ بہت اداس لگ رہے ہو؟"
صائم نے
مسکرانے کی کوشش کی، "نہیں، سب ٹھیک ہے، میں تو بالکل خوش ہوں۔"
سمن نے کرسی
کو کھینچتے ہوئے اس پر بیٹھ کر کہا، "اچھا، لیکن مجھے تو اداسی چھپی ہوئی صاف
دکھائی دے رہی ہے!"
صائم نے کاغذات
ہاتھ میں لیے اور اس میں نظریں جماتے ہوئے کہا، "نہیں یار، ٹھیک ہوں، سب ٹھیک
ہے!"
"اچھا،
خیر، مجھے تم سے مدد چاہیے!"
"کیسی مدد؟"
صائم نے دھیرے سے پوچھا۔
"میں
تمہاری اسسٹنٹ بننا چاہتی ہوں!" سمن نے اطمینان سے کہا۔
"اچھا؟"
صائم حیران ہو گیا۔
"نہیں،
تمہیں ضرورت نہیں ہے آفس سنبھالنے کی، امی کو تمہاری ضرورت ہے، تم ان کو
سنبھالو۔" صائم نے بجھے ہوئے لہجے میں
کہا۔
سمن نے صائم
کے ہاتھوں کو پکڑا اور کہا:"دیکھو صائم، مجھے کمپنی کے حالات کا پتہ ہے، میں
ویل ایجوکیٹڈ ہوں اور ان باتوں کی تربیت بھی حاصل کر چکی ہوں، اور کافی وقت پاپا
کے ساتھ بھی گزارا ہے، میرے لیے یہ کوئی اتنا بڑا مسئلہ نہیں ہے۔
جب مجھے کوئی
کام ہوتا ہے تو تم میری پوری مدد کرتے ہو، لیکن آج میرے بھائی کو میری ضرورت ہے،
تو کیا میں اس کی مدد نہیں کر سکتی؟"
صائم نے
کہا، "نہیں، میں سنبھال لوں گا، دیکھو، میں پوری کوشش کر رہا ہوں اور کرتا
رہوں گا۔ میں چاہتا ہوں کہ میری بہن کی شادی ہو اور دھوم دھام سے وہ رخصت
ہو۔"
"پہلے
بہن اپنے بھائی کی پرابلم حل کرنے میں اس کا ساتھ دے گی اور پھر وہ خوشی خوشی شادی
کرے گی، اپنے بھائی کو دکھ میں چھوڑ کر شادی میں کیا مزہ آئے گا؟" سمن نے کہا
اور کرسی پر جھولنے لگی۔
صائم سوچوں
میں غرق ہو گیا۔
سمن نے کہا،
"جب تک تمہارا کمپنی کے امورمیں تمہارا ہاتھ نہیں بیٹھ جاتا، تب تک ہم دونوں
مل کر اس کمپنی کو لیڈ کریں گے۔ دونوں مل
کر کام کریں گے تو ضرور ہماری کمپنی پہلے سے بھی آگے بڑھ جائے گی۔ ابھی بھی کوئی
نقصان نہیں ہوا ہے، معاملہ آسان ہے، تم فکر مت کرو۔"
صائم نے سمن
کا ہاتھ پکڑا اور رونے لگا اور کہا:
"اگر میں تمہاری بات مان لیتا، اپنا وقت ضائع نہ کرتا، تو یقیناً آج میں
کامیاب ہوتا، آج مجھے یہ دن نہ دیکھنا پڑتا!"
"کوئی
بات نہیں!" سمن نے اسے چپ کراتے ہوئے کہا،
"دیر آید،
درست آید ۔اب تم نئے جذبہ کے ساتھ کھڑے ہوجاؤ۔ بھول جاؤ کے تم نے وقت ضایع کیا ہے۔ ہمیں ایسا نہیں سوچنا چاہیے ماضی کی پریشانیوں کو یاد
کرکے کہ کاش ایسا ہوجاتا یا ویسا ہوجاتا ۔پیارے نبی ﷺ نے فرمایا ہے:
"طاقتور مومن اللہ تعالیٰ کے نزدیک کمزور مومن سے
بہتر اور پیارا ہے ۔دونوں میں سے ہر ایک میں خیر ہے، ہر اس چیز کی حرص کرو جو
تمہیں نفع دے، اور اللہ سے مدد طلب کرو، دل ہار کر نہ بیٹھ جاؤ، اگر تمہیں کوئی
نقصان پہنچے تو یہ نہ کہو: کاش کہ میں نے ایسا ویسا کیا ہوتا تو ایسا ہوتا، بلکہ
یہ کہو: جو اللہ نے مقدر کیا تھا اور جو اس نے چاہا کیا، اس لیے کہ ”اگر مگر“ شیطان
کے عمل کے لیے راستہ کھول دیتا ہے۔"
تم اگر ماضی کی پریشانیوں میں کھوئے رہوگے تو حال کی لذتوں کو فراموش کر
بیٹھوگے ۔ ہاں گزرا وقت واپس نہیں آتا لیکن اگر ہم اس کی یادوں میں رہیں گے تو حال
کو بھی خراب کرلیں گے۔ ابھی بھی اتنا کچھ نہیں کھویا۔ کمپنی کو فائدہ
نہیں پہنچا تو کیا ہوا نقصان بھی نہیں پہنچا۔ پاپانے تمہیں چیئرمین بنایا ہی اس
لیے تھا تاکہ وہ تمہیں یہ کمپنی چلانا سکھاسکیں۔یہ وقت تمہارا سیکھنے کا ہی چل رہا
ہے ابھی عمر باقی ہے ۔ علم حاصل کرنے کا کوئی وقت طے نہیں ہے۔ علم تو قبر تک حاصل
کرنا چاہیے۔تم آج سے یہ عزم کرو کہ میں اپنا مستقبل اپنے ماضی کی طرح نہیں بننے دوں
گا۔ آج سے جتنا کچھ کھویا ہے اس کی تلافی
کرنا شروع کردو۔
صائم ٹکر
ٹکر سمن کی طرف دیکھ کر اس کی باتیں سنتا
رہا۔
سمن نے مسکرا کر کہا:" چلو ،اب ہم مل کر
کمپنی کو چلائیں گے اور اپنا وقت آئندہ قیمتی بنائیں گے اور پاپا کے اس بزنس کو
خوب بڑھائیں گے۔ جب کوئی کام مل کر کیا
جائے تو اللہ تعالی کی خاص مدد حاصل ہوتی ہے۔"
سمن نے اس
کی طرف ہاتھ بڑھایا"اب چلو، اس ڈیل کے ذریعے اپنی نئی زندگی کی شروعات کرتے ہیں!"
صائم نے اس
کا ہاتھ تھام لیا ۔ او ردونو ں نے نئے عزم کے ساتھ باہر کی طرف قدم بڑھادیے۔
Comments
Post a Comment